جون کی ماہانہ رپورٹ اور جائزہ جو وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری کیا گیا، میں معیشت سے متعلق جو کامیابیاں بیان کی گئی ہیں، وہ ایسے مستند اعداد و شمار سے محروم ہیں جو ان دعووں کی تائید کر سکیں۔ رپورٹ کا آغاز اس بیان سے ہوتا ہے کہ پاکستان کی معیشت نے 2025 میں ترقی کا تسلسل برقرار رکھا جسے مضبوط میکرو اکنامک بنیادوں، ذمہ دارانہ مالی حکمتِ عملی اور بیرونی شعبے کی بہتری کا سہارا حاصل رہا تاہم خود اسی رپورٹ میں شامل اعدادوشمار ان دعوؤں کو 3 مختلف پہلوؤں سے چیلنج کرتے ہیں۔
اوّل جہاں تک مضبوط معاشی بنیادوں کا تعلق ہے، اپڈیٹ میں دیے گئے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 20 جون 2025 تک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 9.1 ارب ڈالر تھے — جو کہ تین دوست ممالک، خاص طور پر چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے دی گئی رول اوور رقم سے 6.9 ارب ڈالر کم ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری جولائی تا مئی 2024 کے 1.58 ارب ڈالر سے کم ہو کر 2024-25 کی اسی مدت میں 1.35 ارب ڈالر رہ گئی، جب کہ پورٹ فولیو سرمایہ کاری 2024 میں منفی 559.5 ملین ڈالر سے کم ہو کر 2025 میں منفی 624.4 ملین ڈالر تک گر گئی (دلچسپ بات یہ ہے کہ بیرونی پورٹ فولیو سرمایہ کاری میں کمی کے باوجود پاکستان اسٹاک مارکیٹ 58.4 فیصد بڑھ گئی، جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حکومت نے اس شعبے پر ٹیکس لگانے سے گریز کیا)؛ اور کنزیومر پرائس انڈیکس جولائی تا مئی 2024 میں 5.34 فیصد سے گر کر 2025 کی اسی مدت میں 2.29 فیصد ہو گیا (اگرچہ عالمی بینک کے مطابق ملک میں غربت کی شرح 44.2 فیصد تک پہنچ گئی ہے)۔
دوم محتاط مالیاتی نظم و نسق کا انحصار غیر معمولی حد تک نان ٹیکس ریونیو میں اضافے پر ہے جو پٹرولیم لیوی کی وصولیوں میں نمایاں اضافے کے باعث ہوا — یہ ایک بالواسطہ ٹیکس ہے جس کی اصل ضرب امیر طبقے کی نسبت غریب عوام پر زیادہ پڑتی ہے اور اس کی حدِ بالا (اپر لمٹ) بھی ختم کردی گئی ہے۔
اس ذریعے سے حاصل ہونے والی آمدن میں 2022-23 کے مقابلے میں 2023-24 کی نظرثانی شدہ تخمینوں میں 21 فیصد کا غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ موجودہ مالی سال کے بجٹ میں اس میں مزید 26 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے — یعنی گزشتہ سال کے نظرثانی شدہ 1161 ارب روپے سے بڑھ کر 2025-26 میں 1468.39 ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے جس کا براہِ راست اثر عام آدمی کی ہر کمائی ہوئی روپیہ کی قدر پر پڑتا ہے۔ موازنہ کے طور پر یہ جاننا بھی اہم ہے کہ پٹرولیم لیوی سے حاصل ہونے والی آمدن ایف بی آر کی رواں مالی سال کے لیے متوقع مجموعی ٹیکس وصولیوں کا 10 فیصد ہے۔
اور آخرکار بیرونی شعبے کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی ہے، جس کی بڑی وجہ ترسیلاتِ زر میں زبردست اضافہ ہے — جو جولائی تا مئی 2023-24 کے 27 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2024-25 میں 34.89 ارب ڈالر ہو گئیں۔ اگرچہ کچھ ماہرینِ معیشت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان پر اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید کر انہیں ترسیلاتِ زر کے کھاتے میں دکھانے کا الزام لگایا ہے جس کی تردید نہیں کی گئی، لیکن اس سے قطع نظر، چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت قائم کردہ آزاد توانائی پیدا کرنے والے اداروں (آئی پی پیز) نے حکومت کو بارہا یاد دہانی کرائی ہے کہ ان کے واجبات کی ادائیگی کی جائے جو اب بڑھ کر 500 ارب روپے (یعنی 1.72 ارب ڈالر) تک پہنچ چکے ہیں۔
مزید برآں، جولائی تا مئی 2025 کے دوران برآمدات میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 4 فیصد بہتری آئی، تاہم درآمدات — جن میں خام مال اور درمیانی درجے کی اشیاء شامل ہیں اور جو معاشی ترقی کے لیے ناگزیر سمجھی جاتی ہیں — 11.5 فیصد بڑھ گئیں، جس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ تقریباً 20 ارب ڈالر سے بڑھ کر 24 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جولائی تا اپریل 2025 کے دوران بڑی صنعتوں کی پیداوار (ایل ایس ایم) میں 1.52 فیصد کی منفی شرح نمو ریکارڈ کی گئی جبکہ گزشتہ سال اسی مدت میں 0.26 فیصد مثبت نمو دیکھی گئی تھی۔
رپورٹ میں حیران کن طور پر یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ “بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے جاری پروگرامز — ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی (ای ایف ایف) اور ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلیٹی فسیلٹی (آر ایس ایف) — کے ساتھ ساتھ کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری نے پالیسی پر اعتماد اور سرمایہ کاروں کے جذبات کو تقویت دی، تاہم حقیقت یہ ہے کہ تینوں بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی جانب سے، بشمول اپریل میں دی گئی تازہ ریٹنگ، پاکستان کو اب بھی سرمایہ کاری کے لیے غیر موزوں درجے میں رکھا گیا ہے، جو کہ بلند سطح کے قیاس آرائی پر مبنی زمرے میں آتا ہے اور ایسے ممالک کے لیے مخصوص ہے جن کے ڈیفالٹ کا خطرہ موجود ہو اور مالی تحفظ کا مارجن نہایت محدود ہو — اور یہ درجہ عموماً صرف آئی ایم ایف پروگرام کی موجودگی کی بنیاد پر برقرار رکھا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں حکومت کا یہ دعویٰ کہ ہم ساختی اصلاحات کے لیے پرعزم ہیں، جن میں ٹیکس نظام میں ہم آہنگی، توانائی کی قیمتوں کا تعین اور نجکاری شامل ہے — آسانی سے چیلنج کیا جاسکتا ہے، کیونکہ موجودہ مالی سال کے بجٹ میں کل محصولات کا تقریباً 80 فیصد بالواسطہ ٹیکسز پر مشتمل ہے — جن میں سے 60 فیصد واضح طور پر بالواسطہ ٹیکسز سے جبکہ نام نہاد براہِ راست ٹیکسز کا 75 سے 80 فیصد حصہ بھی اصل میں سیلز ٹیکس کے طرز پر عائد کردہ وِد ہولڈنگ ٹیکسز پر مشتمل ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں ممکنہ کمی کا انحصار ایک طرف تو آزاد بجلی پیدا کرنے والے اداروں (آئی ئی پیز) سے کیے گئے ازسرنو معاہدوں سے متوقع بچت پر ہے اور دوسری جانب کمرشل بینکوں سے کم شرح سود پر 1 کھرب روپے سے زائد قرض لینے کی امید پر مبنی ہے — یہ فرض کرتے ہوئے کہ اسٹیٹ بینک کا ڈسکاؤنٹ ریٹ مسلسل کم ہوتا رہے گا۔ جہاں تک نجکاری کا تعلق ہے، تو یہ عمل ابھی تک عملاً شروع نہیں ہوا، اور بجٹ میں نجکاری سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ہدف صرف 87 ارب روپے (یعنی تقریباً 300 ملین ڈالر) رکھا گیا ہے۔
معاشی صورتحال بدستور نازک ہے اور عام عوام تاریخی سطح کی غربت کے بوجھ تلے پس رہے ہیں، جہاں معاشی استحکام کا انحصار اب بھی بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کی مسلسل معاونت پر ہے۔ ایسے میں اگر حکومت تمام جاری اخراجات — جن میں اس بار سب میں اضافہ کیا گیا ہے — پر کٹوتی کرتی تو یہ ایک مثبت پیغام ہوتا۔ اس کے برعکس حکومت نے شرحِ سود (ڈسکاؤنٹ ریٹ) میں مستقبل میں کمی کے امکان کو بنیاد بنا کر آئندہ مالی سال 2025-26 میں پرانے قرضوں اور کم شرح پر نئے قرضوں کے سود میں کمی کا تخمینہ لگا کر اخراجات میں کمی ظاہر کی ہے، تاہم یہ شرحِ سود صرف آئی ایم ایف کے عملے کی منظوری سے ہی کم کی جا سکتی ہے، جنہوں نے اپنی حالیہ رپورٹس میں بغیر مناسب ڈیٹا کے شرحِ سود میں کمی پر سخت تنبیہ کی ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025
Comments