یہ ایک حقیقت ہے کہ معیشت کم شرحِ نمو کے جال میں پھنسی ہوئی ہے۔ درآمدات میں پہلے ہی بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ اس کے ساتھ کوئی مضبوط معاشی نمو نظر نہیں آ رہی۔ روایتی طور پر درآمدی دباؤ اُس وقت محسوس ہوتا ہے جب ترقی کی شرح چار فیصد سے تجاوز کرتی ہے؛ تاہم اب دو سے تین فیصد کی سطح پر دو سال تک استحکام کے باوجود انٹربینک مارکیٹ میں دباؤ نمایاں ہو چکا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ معیشت کا حجم بڑھ رہا ہے کیونکہ مالی سال 2016 میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) 311 ارب امریکی ڈالر تھی جو مالی سال 2025 میں بڑھ کر 410 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ۔
تاہم اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر اس وقت 10 سے 12 ارب امریکی ڈالر کے درمیان ہیں، جبکہ مالی سال 2016 میں یہ 18 ارب ڈالر تھے۔ اگرچہ اجناس کی قیمتیں اپنی بلند ترین سطح سے کم ہوئی ہیں، مگر اب بھی وہ مالی سال 2016 تا 2018 کی سطح سے زیادہ ہیں۔ محدود زرمبادلہ ذخائر اور نسبتاً زیادہ اجناس کی قیمتوں کا امتزاج، نوجوان اور بڑھتی ہوئی آبادی کی جانب سے بڑھتی ہوئی صارفین کی طلب کے ساتھ مل کرمعیشت کو کم شرحِ نمو کے ایک چکر میں جکڑ دیتا ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ مسلسل آئی ایم ایف پروگرامز کا حصہ رہنے اور اصلاحاتی اقدامات پر پیش رفت کے لیے آئی ایم ایف کی جانب سے تعریفی بیانات کے باوجود پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ کیوں نہیں ہو رہا اور بیرونی مالی معاونت کیوں کم ہوتی جا رہی ہے؟ مزید یہ کہ جب بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی درجہ بندی بہتر کی ہے، تو پھر دو طرفہ اور مارکیٹ پر مبنی مالیاتی آمدن محدود کیوں ہے؟ اور آخر کیوں ملک بار بار قرضوں کی ری شیڈولنگ اور رول اوورز کے چکر میں پھنسا ہوا ہے؟
حال ہی میں چین نے اپنی وعدہ شدہ مالی معاونت کا صرف نصف حصہ منظور کیا، جبکہ دیگر دو طرفہ شراکت دار صرف موجودہ قرضوں کو رول اوور کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی ریٹنگز میں بہتری کے باوجود کمرشل قرضے بدستور مہنگے ہیں۔ وزیر خزانہ اب تک چینی مارکیٹس سے پانڈا بانڈز کے ذریعے سرمایہ حاصل کرنے کا عمل شروع نہیں کرسکے، اور نہ ہی نئے یوروبانڈز یا سکوک جاری کرنے پر کوئی بات چیت ہو رہی ہے۔ فی الحال کسی نئے قرضے کی فوری دستیابی کے آثار نظر نہیں آتے۔
فی الحال حکومت کے پاس سرمایہ کاری کے حوالے سے صرف زبانی دعوے اور خالی وعدے ہیں۔ اگر کچھ ممکن ہے تو وہ یہ کہ ریاستی خودمختاری کے تاثر کو عالمی سطح پر بہتر بنا کر قرضے حاصل کیے جائیں۔ جہاں تک حقیقی سرمایہ کاری کا تعلق ہے، وہ نجی شعبے سے آنی چاہیے، لیکن جب مقامی سرمایہ کار ہی ملک سے سرمایہ باہر لے جانے کے خواہاں ہوں، تو غیر ملکی سرمایہ کاروں کی دلچسپی کی امید محض خوش فہمی ہی کہی جا سکتی ہے۔
فنانشل اکاؤنٹ سے سرمائے کا انخلا مسلسل جاری ہے اور کچھ قرضے ممکنہ طور پر رول اوور نہیں ہوسکیں گے جب کہ کیپیٹل اکاؤنٹ میں آنے والی آمدنی، خصوصاً براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اس خلا کو پُر کرنے کیلئے ناکافی ہے، نتیجتاً مالی سال 2025-26 میں جاری کھاتے (کرنٹ اکاؤنٹ) کو یا تو متوازن رکھنا ہوگا یا پھر اسے سرپلس میں لانا ناگزیر ہوگا۔ ترسیلاتِ زر موجودہ بلند سطح کے باعث نمایاں اضافے کی گنجائش نہیں رکھتیں اور برآمدات میں بھی اضافے کی صلاحیت محدود ہے۔
اس کے برعکس درآمدی دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے، موجودہ 2 سے 3 فیصد کی شرحِ نمو پر بھی درآمدات کو سنبھالنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ قومی ٹیرف میں اصلاحات کی پالیسی نافذ العمل ہونے کے باعث درآمدی ڈیوٹی میں کمی متوقع ہے، جو درآمدات کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ ایسے میں طلب کو قابو میں رکھنا نہایت اہم اور ناگزیر ہوچکا ہے۔
کرنسی معیشت کی پہلی دفاعی لائن ہے۔ اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر میں کمی کی رفتار پانچ پیسےبڑھا کر یومیہ 15 پیسےکردی ہے، اور اس وقت ڈالر کے مقابلے میں روپیہ تقریباً 284 کی سطح پر گردش کررہا ہے، جب تک درآمدات پر قابو نہیں پایا جاتا کرنسی کو مزید ایڈجسٹ کرنا ہوگا، جس کا مطلب ہے کہ شرح سود میں مزید کمی کی گنجائش نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
ایک اور تشویش یہ ہے کہ روپے کی قدر میں کمی مہنگائی کی توقعات کو دوبارہ بڑھا سکتی ہے کیونکہ ایندھن اور توانائی کی قیمتیں امریکی ڈالر سے منسلک ہیں، اور اس کے ساتھ ہی حکومت کے بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگیاں بھی بڑھ جائیں گی۔ کرنسی کی قدر میں کمی کے نتیجے میں برآمدات میں ہونے والا اضافہ بھی ابتدا میں نہایت معمولی ہوگا۔ یوں کمزور معاشی بحالی کو قبل از وقت چیلنجز کا سامنا ہے اور یہ رجحانات مالی سال 2025-26 میں بھی برقرار رہنے کا امکان رکھتے ہیں۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025
Comments