حکومت نے وزارت قانون سے رائے طلب کی ہے کہ آیا مشاورتی کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنے میں اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کے اختیارات پبلک پروکیورمنٹ رولز سے فوقیت رکھتے ہیں یا نہیں۔
سیکریٹری تجارت کے قریبی ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ یہ اقدام وزارت تجارت کی جانب سے پیش کی گئی ایک سمری کے بعد کیا گیا ہے جس میں یورپی یونین (ای یو) کے ساتھ پاکستان کے جی ایس اپی پلس اسٹیٹس کی توسیع میں مدد کے لیے میسرز حیدر گلوبل بی وی بی اے نامی لابنگ فرم کی خدمات حاصل کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
17 جون 2025 کو ایم ڈی (پی پی آر اے) حسنات احمد قریشی نے بورڈ کو آگاہ کیا کہ وزارت تجارت نے 12 جون 2025 کو ایک خط کے ذریعے اتھارٹی سے درخواست کی ہے کہ پبلک پروکیورمنٹ رولز 2004 کے قواعد 20 اور 21 اور پی پی آر اے کے دیگر متعلقہ ضوابط سے استثنیٰ دیا جائے تاکہ یورپ میں براہِ راست معاہدے کے ذریعے لابنگ فرم کی خدمات حاصل کی جاسکیں۔ یہ درخواست پی پی آر اے آرڈیننس 2002 کے سیکشن 21 کے تحت کی گئی ہے۔ یہ لابنگ فرم پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی نظرثانی اور تجدید میں مدد فراہم کرے گی۔
معاملے کے پس منظر میں وزارت تجارت نے وضاحت کی کہ موجودہ جی ایس پی اسکیم یورپی یونین نے 2012 میں EU ریگولیشن 978/2012 کے ذریعے متعارف کرائی تھی۔ یہ اسکیم یکم جنوری 2014 سے نافذ العمل ہوئی اور ابتدا میں اسے دس سال کے لیے نافذ رکھنے کا ارادہ تھا جو 31 دسمبر 2023 تک جاری رہی۔
یورپی پارلیمنٹ نے مذکورہ ای یو ریگولیشن میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت موجودہ جی ایس پی ریگولیشن کی مدت کو 4 سال کے لیے بڑھا کر 31 دسمبر 2027 تک کردیا گیا ہے جو پہلے 31 دسمبر 2023 کو ختم ہورہی تھی۔
یہ اسکیم یورپی یونین کے 66 فیصد سے زائد ٹیرف لائنز پر صفر محصولات کی سہولت فراہم کرتی ہے اور پاکستان سے ای یو کو برآمدات 2014 میں 4.6 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2024 میں 8.38 ارب ڈالر ہوچکی ہیں۔ پاکستان نے GSP پلس کے چار دو سالہ جائزے مکمل کر لیے ہیں اور اگلا جائزہ اب ہونا ہے، جس کے لیے مانیٹرنگ مشن 22 جون 2025 سے پاکستان کا دورہ کرے گا۔
تاہم، مشرق وسطیٰ میں تنازع اور اس وقت کی غیر متوقع سفری صورتحال کی وجہ سے دورہ مؤخر کردیا گیا ہے۔ اب مانیٹرنگ مشن کے نومبر یا دسمبر میں پاکستان آنے کی توقع ہے۔
وزارت تجارت کے مطابق پاکستان کی برآمدات کے لیے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے لابنگ فرم کی خدمات حاصل کرنا تجدید اور توسیع کے عمل کے لیے نہایت ضروری ہے۔ وزارت نے اس بات پر زور دیا کہ ایسی فرم کو چاہیے کہ:(i) یورپی یونین کے قانون اور کنونشنز میں مہارت رکھتی ہو تاکہ پاکستان کو مناسب قانونی جوابات ترتیب دینے میں مدد دے؛(ii) پاکستانی کاروبار کو ای یو کے بدلتے ہوئے ضوابط کے مطابق ڈھلنے میں مدد فراہم کرے، جو اہم شعبوں کو متاثر کرتے ہیں؛(iii) تجربہ کار سابقہ ای یو پالیسی سازوں تک رسائی رکھتی ہو جو سیاسی اور اقتصادی چیلنجز کے بارے میں بصیرت فراہم کر سکیں۔
وزارت خارجہ نے میسرز حیدر گلوبل بی وی بی اے کی جانب سے پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے جاری جائزے اور تجدید کے حوالے سے پیشکش اور ادائیگی کے شیڈول کو منسلک کیا ہے۔ یہ پیشکش پاکستان کے برسلز مشن سے موصول ہوئی ہے۔
پیشکش کے مطابق، معاہدے کی مدت تین سال ہوگی جس کے تحت کل ادائیگی چھ ملین یورو (تقریباً 2 ارب روپے) ہوگی جو ادائیگی کے شیڈول کے مطابق کی جائے گی۔ یورپی کمیشن کے مانیٹرنگ مشن کے آنے والے دورے کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت تجارت کا خیال ہے کہ پاکستان کے برسلز مشن کی تجویز کے مطابق ایک لابنگ فرم کو فوری طور پر خدمات حاصل کرنا قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔
ایم ڈی (پی پی آر اے) نے مزید بتایا کہ وزارت تجارت نے اس سلسلے میں وزارت خارجہ، وزارت خزانہ اور ایس آئی ایف سی کے ذریعے وزیرِاعظم کو ایک سمری ارسال کی ہے جس میں متعلقہ پی پی آر اے قواعد کے ضوابط اور دیگر مالیاتی ضابطوں میں نرمی کرتے ہوئے لابنگ فرم کی خدمات حاصل کرنے کی منظوری طلب کی گئی ہے۔
ایس آئی ایف سی نے 10 جون 2025 کو وزارت تجارت کی درخواست کی منظوری دیتے ہوئے فیصلہ کیا کہ شدید وقتی قید اور جی ایس پی کی قومی معیشت کے لیے اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایس آئی ایف سی وزارت تجارت کی اس درخواست کی تائید کرتا ہے کہ پی پی آر اے قواعد کے متعلقہ شق سے استثنیٰ دیا جائے تاکہ وزارت تجارت براہِ راست اس فرم سے معاہدہ کر سکے جس کے پاس مطلوبہ مہارت، تجربہ اور مقام ہو، اور قیمت کی معقولیت وزارت تجارت کے ذریعے طے کی جائے۔
بعد ازاں، وزیرِاعظم آفس نے 12 جون 2025 کو ایک خط کے ذریعے وزارت تجارت کو ہدایت دی کہ یہ معاملہ ایس آئی ایف سی کی سفارشات کے ساتھ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی بورڈ کے سامنے غور و منظوری کے لیے پیش کیا جائے۔ خط میں کہا گیا کہ وزیرِاعظم کے احکامات کے لیے کیس پیش کرنے سے قبل، وزارت تجارت یہ معاملہ ایس آئی ایف سی کی سفارشات کے ہمراہ پی پی آر اے بورڈ کے غور و خوض اور منظوری کے لیے پیش کرے اور پھر سمری وزیرِاعظم کے حکم کے لیے دوبارہ جمع کروائی جائے۔
سیکریٹری کامرس ڈویژن جواد پاؤل اور ایڈیشنل سیکریٹری یورپ (وزارت خارجہ) اجلاس میں کیس کے دفاع کرنے کے لیے موجود تھے جبکہ پاکستان کے برسلز مشن کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے۔ بورڈ کے ایک رکن کی جانب سے معاملے کی ہنگامی نوعیت سے متعلق سوال پر سیکریٹری کامرس نے وضاحت کی کہ یورپی کمیشن کا جائزہ مانیٹرنگ مشن پاکستان کا دورہ کرے گا تاکہ پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس پر غور کیا جا سکے، اس لیے اسکیم کے تسلسل کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ متعلقہ فرم کو فوری طور پر خدمات کے لیے حاصل کیا جائے۔
چیئرمین/سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے نشاندہی کی کہ پی پی آر اے بورڈ صرف پروکیورمنٹ رولز کے اطلاق سے استثنیٰ کی سفارش کر سکتا ہے، جب کہ لابنگ فرم کو حتمی شکل دینا اور اس کی خدمات حاصل کرنا اس معاملے میں بطور خریداری ایجنسی وزارت تجارت کی ذمہ داری ہے۔
گفتگو کے دوران سیکریٹری تجارت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پی پی آر اے قواعد کے اطلاق سے استثنیٰ کی سفارش کے حوالے سے ایس آئی ایف سی اور پی پی آر اے بورڈ دونوں کی جانب سے علیحدہ علیحدہ سفارش کی ضرورت واضح ہونی چاہیے کیونکہ اس سے عمل دہرا ہو جاتا ہے اور وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ ان کا مؤقف تھا کہ جب ایس آئی ایف سی پہلے ہی کسی کیس کی سفارش کر چکا ہو تو ایسے معاملات کو پی پی آر اے بورڈ کو بھیجنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔
بورڈ کے بیشتر اراکین نے بھی اس معاملے پر اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا اور تجویز دی کہ ان کیسز کے لیے جنہیں ایس آئی ایف سی نے پروکیورمنٹ رولز سے استثنیٰ کے لیے منظور کیا ہو، ایک مربوط اور معیاری طریقہ کار اپنایا جائے تاکہ ایسے معاملات مؤثر اور بروقت انداز میں نمٹائے جا سکیں۔
ایک رکن نے رائے دی کہ یہ قانونی نوعیت کا معاملہ ہے اور اس بارے میں وزارت قانون سے وضاحت طلب کی جانی چاہیے کہ آیا پی پی آر اے بورڈ کو ان پروکیورمنٹ قواعد سے استثنیٰ دینے کی درخواست پر غور کرنا چاہیے، جس کی پہلے ہی ایس آئی ایف سی کی جانب سے سرمایہ کاری بورڈ ایکٹ 2023 کی دفعہ 10-ایف ’’قواعد و ضوابط سے نرمی یا استثنیٰ دینے کے اختیارات‘‘ کے تحت سفارش کی جا چکی ہو یا نہیں؟
سیکریٹری تجارت نے زور دیا کہ ایس آئی ایف سی کی سفارشات اور تائید، نیز وزیرِاعظم آفس کی ہدایات کے مطابق، پی پی آر اے بورڈ کو یہ کیس وفاقی حکومت کو سفارش کے لیے بھیجنا چاہیے تاکہ پی پی آر اے رولز 2024 کی شق 20 اور 21 اور فریم ورک کی دیگر متعلقہ شقوں سے استثنیٰ دیا جا سکے، تاکہ میسرز حیدر گلوبل بی وی بی اے کی خدمات براہِ راست معاہدے کے ذریعے پی پی آر اے آرڈیننس کی شق 21 کے تحت حاصل کی جاسکیں۔
تفصیلی غور و خوض کے بعد، معاملے کی اہمیت اور پی پی آر اے بورڈ کی سفارشات کی قانونی حیثیت پر بحث کے بعد بورڈ نے فیصلہ کیا کہ وزارت قانون و انصاف سے قانونی رائے طلب کی جائے۔سوال یہ ہے:“کیا سرمایہ کاری بورڈ (ترمیمی) ایکٹ 2023 کی دفعہ 10-ایف کے تحت SIFC کی جانب سے دی گئی سفارش/تائید وفاقی کابینہ کی جانب سے استثنیٰ دینے کے لیے کافی ہے؟ یا اس کے ساتھ ساتھ معاملے کو دوبارہ پی پی آر اے آرڈیننس 2002 کی دفعہ 21 کے تحت استثنیٰ کی منظوری کے لیے پی پی آر اے بورڈ کو بھی بھیجنا ضروری ہے؟
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025
Comments