ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کے بعد عالمی منڈیوں میں شدید ردعمل کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے، جو پیر کو منڈیوں کے دوبارہ کھلنے پر تیل کی قیمتوں میں اضافے اور محفوظ سرمایہ کاری کی طرف رجحان پیدا کر سکتا ہے۔ سرمایہ کاروں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو ایک خطرناک مرحلے میں داخل کر رہا ہے جس کے عالمی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اعلان کیا کہ ایران کی تین کلیدی جوہری افزودگی کی تنصیبات پر ”انتہائی کامیاب فوجی حملہ“ کیا گیا ہے، اور فردو کا مقام مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایران نے امن کی راہ اختیار نہ کی تو مزید اہداف کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔

ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی فوجی شمولیت کے سبب اسٹاک مارکیٹس میں ابتدائی مندی، جبکہ ڈالر اور دیگر محفوظ اثاثوں کی قدر میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم ماہرین نے یہ بھی تسلیم کیا کہ صورتحال میں اب بھی بہت زیادہ غیر یقینی موجود ہے۔

تیل اور مہنگائی کا خطرہ

پوٹومیک ریور کیپٹل کے چیف انویسٹمنٹ آفیسر مارک اسپنڈل کا کہنا ہے: ”مارکیٹ ابتدائی طور پر گھبراہٹ کا شکار ہو گی، اور تیل کی قیمتیں بلند سطح پر کھل سکتی ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ ٹرمپ نے اسے ’ختم شدہ معاملہ‘ قرار دیا ہے، لیکن ابھی صورتحال واضح نہیں اور نقصان کا مکمل تخمینہ لگنے میں وقت لگے گا۔

کریسیٹ کیپٹل کے چیف انویسٹمنٹ آفیسر جیک ایبلن نے کہا کہ یہ ایک پیچیدہ خطرے کی نئی سطح ہے جس پر ہمیں توجہ دینا ہو گی۔ اس کا اثر توانائی کی قیمتوں اور مہنگائی پر ضرور پڑے گا۔

تحقیقی ادارے آکسفورڈ اکنامکس نے امریکی حملے سے قبل اپنے تجزیے میں تین ممکنہ منظرنامے پیش کیے تھے، جن میں ایرانی تیل کی پیداوار کی مکمل بندش اور آبنائے ہرمز کی بندش شامل تھی۔ ان میں سب سے بدترین صورت میں تیل کی قیمت 130 ڈالر فی بیرل تک جا سکتی ہے، جس سے امریکا میں مہنگائی کی شرح سال کے اختتام تک 6 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ ایسی صورتحال میں شرح سود میں کٹوتی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔

اسٹاک مارکیٹ کا ردعمل اور ڈالر کی پوزیشن

اگرچہ اس حملے سے ابتدائی طور پر اسٹاک مارکیٹ متاثر ہو سکتی ہے، لیکن ماضی کے تجربات کے مطابق ایسی کشیدہ صورتحال میں مارکیٹ عموماً کچھ عرصے بعد سنبھل جاتی ہے۔ ویڈبش سیکیورٹیز اور کیپ آئی کیو پرو کے مطابق، ماضی میں مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے آغاز کے تین ہفتے بعد ایس اینڈ پی 500 انڈیکس میں اوسطاً 0.3 فیصد کمی آئی، لیکن دو ماہ بعد اس میں اوسطاً 2.3 فیصد اضافہ ہوا۔

ڈالر کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں عارضی طور پر ’فلائٹ ٹو سیفٹی‘ یعنی محفوظ اثاثوں کی طرف رجحان بڑھ سکتا ہے، جس سے ڈالر کی قدر میں اضافہ ممکن ہے۔

آئی بی کے آر کے چیف مارکیٹ اسٹریٹجسٹ اسٹیو سوسنک نے کہا کہ اگر خطرے سے بچاؤ کی طرف جھکاؤ بڑھا تو اس کا مطلب ہوگا کہ بانڈز کی پیداوار کم اور ڈالر کی قدر بلند ہو گی۔ لیکن سب کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ ایران کا ردعمل کیا ہوتا ہے اور تیل کی قیمتیں کس حد تک بڑھتی ہیں۔

اگر ایران کی طرف سے شدید جوابی کارروائی سامنے آتی ہے تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے، جو نہ صرف توانائی کی عالمی فراہمی بلکہ معیشت، صارفین کے اعتماد، اور مرکزی بینکوں کی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہو گی۔

Comments

200 حروف