2016 سے جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) کی مفلوج حالت کے باعث جنوبی ایشیا کا معاشی اور سیاسی انضمام کا خواب منجمد ہو کر رہ گیا ہے۔ تاہم، آج ایک نیا رجحان ابھرتا دکھائی دے رہا ہے، ایسا رجحان جس کی قیادت نئی دہلی نہیں بلکہ بیجنگ اور اسلام آباد کر رہے ہیں۔

چین اور پاکستان، جنوبی ایشیا میں تعاون کو بحال کرنے کے لیے بیجنگ کی زیرِ قیادت ایک علاقائی متبادل پر غور کر رہے ہیں۔ یہ پیشرفت نہ صرف علاقائی طاقت کے توازن کو از سرِ نو متعین کر سکتی ہے بلکہ بھارت کے اثر و رسوخ کو کم کر کے متوازی علاقائی نظام قائم کر سکتی ہے۔ اگرچہ یہ پہل چھوٹے جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے نئی معاشی اور سفارتی راہیں کھولتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ خطے میں تقسیم اور جیو اسٹریٹجک کشمکش کے خطرات بھی بڑھا دیتی ہے۔

یہ تجزیہ پاکستان، چین، بھارت اور دیگر چھوٹے علاقائی ممالک جیسے کلیدی فریقین کی محرکات، مضمرات اور تزویراتی امکانات کو واضح کرتا ہے۔ پاکستان، جہاں بھارت کو سارک کی جمودی حالت میں فائدہ نظر آتا ہے، وہیں اسے ایک موقع کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ بھارت کی طرف سے دو طرفہ تعلقات اور انڈو پیسفک حکمتِ عملی پر توجہ مرکوز ہونے کی وجہ سے، اسلام آباد چین کی معاشی اور سفارتی طاقت کے سہارے اس علاقائی خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

چین کی زیرِ قیادت ایک علاقائی پلیٹ فارم پاکستان کو نئی علاقائی اہمیت دے سکتا ہے، جو اسے افغانستان، وسطی ایشیا، ایران، اور دیگر چھوٹے جنوبی ایشیائی ممالک سے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے منصوبوں کے ذریعے جوڑ سکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس پلیٹ فارم سے پاکستان کو بھارت کے ویٹو سے نجات مل سکتی ہے جو اکثر علاقائی اقدامات میں رکاوٹ بنتا ہے، اور یوں پاکستان خود کو جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور یوریشیا کے درمیان ایک راہداری کے طور پر پیش کر سکتا ہے۔

چین کے لیے جنوبی ایشیا ہمیشہ سے بھارت کا زیر اثر علاقہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی)، عسکری اثر و رسوخ اور اب ممکنہ علاقائی اداروں کے ذریعے بیجنگ اس خطے کے ڈھانچے میں مضبوطی سے جُڑ رہا ہے۔

چین کی زیرِ قیادت سارک کا متبادل پلیٹ فارم بیجنگ کو غیر عسکری اثر و رسوخ بڑھانے، تجارتی راہداریوں کے دروازے کھولنے، اور ایشیا میں معاشی و سیکیورٹی تعاون کے قواعد کو ازسرِ نو ترتیب دینے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا اور مالدیپ کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کے تناظر میں، چین خود کو ایک وحدت پیدا کرنے والے فریق کے طور پر پیش کر رہا ہے، جبکہ بھارت کو بتدریج ایک غیر فعال فریق کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

بھارت کی جانب سے 2016 میں سارک کا بائیکاٹ سیاسی اعتبار سے تو قابلِ فہم تھا، لیکن تزویراتی لحاظ سے یہ ایک مہنگا فیصلہ ثابت ہوا۔ نئی دہلی نے معاشی فوائد کے لیے اپنی توجہ بِمسٹیک (BIMSTEC) پر مرکوز کی، اور ایشیا پیسیفک کے سیکورٹی ڈائیلاگ میں شمولیت کے لیے کواڈ (QUAD) جیسے فورمز کا حصہ بنا، جس میں بھارت، جاپان، آسٹریلیا اور امریکہ شامل ہیں۔ ساتھ ہی، اس نے دوطرفہ سفارت کاری کو بھی ترجیح دی۔ تاہم، اس حکمتِ عملی کے نتیجے میں بھارت نے عملی طور پر علاقائی انضمام کی قیادت سے دستبرداری اختیار کر لی۔

اگرچہ بھارت خطے کی سب سے بڑی معیشت ہے، مگر پاکستان کے ساتھ کسی علاقائی پلیٹ فارم میں شمولیت سے اس کی ہچکچاہٹ نے اسے جنوبی ایشیا میں اتحاد پیدا کرنے والی قوت کے طور پر غیر معتبر بنا دیا ہے۔ اس کے برعکس، چین—جو خود اس خطے کا رکن نہیں، نے رابطہ سازی، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور سفارت کاری کے ذریعے ایک مؤثر کثیر الجہتی حیثیت حاصل کر لی ہے۔

اب نئی دہلی ایک مشکل دوراہے پر کھڑا ہے: یا تو وہ دوبارہ علاقائی میز پر آ کر قیادت کا کردار سنبھالے، یا پھر اپنے ہمسایہ ممالک کو چین کی طرف جھکتا ہوا دیکھنے کا خطرہ مول لے۔ بھارت کے پاس انتخاب ہے کہ وہ یا تو رکاوٹ ڈالنے والا فریق بنے یا فائدہ اُٹھانے والا شریک۔

جنوبی ایشیا اس وقت دو متوازی علاقائی تصورات کی جانب بڑھ رہا ہے، ایک بھارت کی قیادت میں (BIMSTEC اور کواڈ)، اور دوسرا چین و پاکستان کی ممکنہ قیادت میں (بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے زیرِ اثر)۔ اس تقسیم کے نتیجے میں خطہ پہلے سے زیادہ منقسم ہو سکتا ہے۔ چھوٹے ممالک کے لیے یہ صورتحال مواقع اور خطرات دونوں لے کر آتی ہے۔ وہ ترقیاتی فوائد کے لیے بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلے سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، لیکن ساتھ ہی ان پر ایک بلاک کا انتخاب کرنے کا دباؤ بھی بڑھے گا۔

خطے میں ابھرنے والی اس تقسیم کا چیلنج صرف سفارتی نہیں، بلکہ معاشی اور سماجی بھی ہے۔ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی رکھنے والا جنوبی ایشیا آج بھی دنیا کے کم ترین مربوط خطوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں بین الریاستی تجارت انتہائی محدود ہے، جبکہ توانائی، ہجرت، ماحولیاتی تبدیلی اور آبی وسائل پر تعاون نہ ہونے کے برابر ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ جنوبی ایشیا کو ایسا ماحول فراہم کیا جائے جہاں وہ گروہی سیاست سے بالاتر ہو کر معاشی حقیقت پسندی کو ترجیح دے۔ اسے ایسے قانونی اور مؤثر فریم ورک درکار ہیں جو خودمختاری کا تحفظ کریں اور قرضوں کے بحران سے بچائیں۔

خطے کو دو متحارب نظاموں کی نہیں، بلکہ ایک مشترکہ پلیٹ فارم کی ضرورت ہے، جہاں باہمی احترام، شمولیت اور معاشی باہمی انحصار کی بنیاد پر تعاون ہو۔

چین اور پاکستان کی قیادت میں اگر ایک نیا علاقائی اتحاد ابھرتا ہے، تو یہ جنوبی ایشیا میں سارک کے بعد کے دور میں تعاون کی نئی شکل لے سکتا ہے۔ یہ ترقی، سرمایہ کاری اور نئی صف بندیاں لانے کا موقع دے گا، لیکن ساتھ ہی اخراج، انحصار، اور جغرافیائی مقابلے کے خدشات بھی بڑھائے گا۔ خطے کے استحکام اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ایک متوازن، جامع اور کثیر قطبی (ملٹی پولر) نظام قائم ہو، جہاں تمام ممالک برابری کی بنیاد پر شامل ہوں اور کوئی بھی طاقت غالب نہ ہو۔

چین کے لیے بھی محتاط رویہ ضروری ہے۔ چھوٹے جنوبی ایشیائی ممالک اگرچہ ترقیاتی امداد کو سراہتے ہیں، مگر وہ عالمی طاقتوں کی چالوں میں مہرے بننے سے ہچکچاتے ہیں۔ اگر نیا فورم محض جغرافیائی سیاسی منصوبہ محسوس ہوا، نہ کہ ایک تعاون پر مبنی شراکت، تو خطے میں مخالفت پیدا ہو سکتی ہے۔

جنوبی ایشیا کو دو متحارب نظاموں کی نہیں، بلکہ ایک مشترکہ، باوقار اور ہم آہنگ پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔

Comments

200 حروف