وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال نے کہا ہے کہ ملک میں بڑے پیمانے پر غیر دستاویزی کاروباری لین دین کا سراغ کمرشل بینکوں کی مدد سے لگایا جائے گا۔
مالیاتی بل 26-2025 کے مجوزہ سیکشن 175AA (خطرناک افراد سے متعلق بینکنگ اور ٹیکس معلومات کا تبادلہ) کا جائزہ لیتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ سے درخواست کی کہ وہ کمرشل بینکوں کو پابند کریں کہ وہ ایف بی آر کو درکار معلومات فراہم کریں۔
اس مقصد کے لیے بینکوں کے لیے ایک مخصوص ٹرن اوور حد مقرر کی جائے گی۔
چیئرمین ایف بی آر نے وضاحت کی کہ ایف بی آر صرف متعلقہ اکاؤنٹ ہولڈرز کے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ نمبر فراہم کرے گا تاکہ ٹرانزیکشن کی تفصیلات حاصل کی جا سکیں، لیکن وہ انکم ٹیکس ریٹرن کی معلومات شیئر نہیں کرے گا۔ صرف اُن کیسز میں ”ریڈ فلیگ“ اٹھایا جائے گا جہاں غیر رپورٹ شدہ بڑی ٹرانزیکشنز کی نشاندہی ہو۔ ان کیسز میں سی این آئی سی کے بیچز بینکوں سے شیئر کیے جائیں گے۔
چیئرمین ایف بی آر نے درخواست کی کہ مجوزہ سیکشن 175AA میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی معاونت کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ایف بی آر کو مطلوبہ تعاون حاصل ہو سکے۔
کمیٹی کے ارکان نے سیکشن 175AA کی ذیلی شق (a) پر سوال اٹھایا، جس میں کہا گیا ہے: ”بورڈ ٹرن اوور، آمدنی بشمول قابل ٹیکس آمدنی، انکم ٹیکس ریٹرن، ویلتھ اسٹیٹمنٹ، مالیاتی بیانات یا دیگر دستاویزات میں دیے گئے بینک اکاؤنٹ نمبرز سمیت شناختی ڈیٹا، اور ڈیٹا پر مبنی الگورتھمز، پاکستان کے شیڈیولڈ بینکوں سے شیئر کر سکتا ہے۔“
چیئرمین ایف بی آر نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر اس شق کو ختم کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کو تیار ہے تاکہ بینکوں کے ساتھ صرف شناختی کارڈ نمبر ہی شیئر کیے جائیں۔
انہوں نے مزید تجویز دی کہ ایک ”سینٹرل ریپوزٹری آف بینکس“ قائم کی جائے جہاں تمام بینک ٹرانزیکشنز کی ایف بی آر کو رپورٹنگ کریں، تاکہ لوگ لین دین کو تقسیم کر کے یا متعدد اکاؤنٹس کھول کر رپورٹنگ سے بچ نہ سکیں۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments