معاشی سمت سازگار ہے — معیشت استحکام کی طرف گامزن ہے، اگلے انتخابات میں تین سال باقی ہیں، اور حکومت مضبوطی سے کنٹرول میں ہے۔ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور سرکاری اخراجات میں کمی کا یہ بہترین موقع ہے۔ مگر اس کے برعکس، ہمیں تقریباً وہی پرانا طرزعمل دیکھنے کو ملا ہے۔ کچھ ایسے شعبے ہیں جہاں کم محنت میں زیادہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں — اگر فی الواقع ایف بی آر کی دلچسپی ہو۔

ایسا ہی ایک شعبہ لائیو اسٹاک (مویشی پالنا) ہے، جو زرعی شعبے کا نصف سے زائد حصہ ہے، اور اٹارنی جنرل کی رائے کے مطابق، اس سے حاصل آمدن پر انکم ٹیکس اور فروخت پر سیلز ٹیکس وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

ایف بی آر نے پنجاب حکومت کی جانب سے لائیو اسٹاک کی آمدن پر ٹیکس لگانے کی قانون سازی کی کوشش کی مخالفت کی، لیکن خود وفاقی حکومت نے بجٹ میں اس آمدن پر ٹیکس عائد کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ یہ قابل توجہ ہے کہ جہاں ایک جانب لائیو اسٹاک کی نمو 4.7 فیصد بتائی جا رہی ہے، وہیں اہم فصلوں کی پیداوار میں 13.5 فیصد کمی آئی ہے۔

حالیہ عیدالاضحیٰ پر کچھ جانوروں کی فروخت فی جانور کئی ملین روپے میں ہوئی، اور یہ تمام لین دین نقد ہوا — نہ کوئی سیلز ٹیکس لیا گیا، نہ انکم ٹیکس کا کوئی سراغ۔ حکومت پولٹری پر ٹیکس عائد کرتی ہے اور پراسیسڈ دودھ کی صنعت کو نظر انداز کرتی ہے، جبکہ سرخ گوشت — جو غریب کو صرف عید پر نصیب ہوتا ہے — کو ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ ستم ظریفی واضح ہے: حکومت سستے پروٹین اور چکنائی کے ذرائع پر ٹیکس لگاتی ہے، جبکہ اسٹیکس اور مٹن چاپس کو چھوٹ دیتی ہے۔

یہ صورت حال اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں ٹیکس پالیسی سماجی ضروریات یا انصاف کی بنیاد پر نہیں، بلکہ صرف وہاں نافذ کی جاتی ہے جہاں سے وصولی آسان ہو۔ حکومت کی پالیسی اہداف کے دعووں سے متصادم دیگر مثالیں بھی ہیں۔ مثال کے طور پر، آن لائن خریداری پر ٹیکس پالیسی کی بات کی جائے۔ موجودہ نظام نقد ادائیگی (کیش آن ڈیلیوری) کو ترغیب دیتا ہے۔ مثلاً اگر آپ کسی آن لائن اسٹور سے 2,000 روپے مالیت کا الیکٹرانک سامان خریدتے ہیں اور ڈیجیٹل ادائیگی کرتے ہیں تو 400 روپے ٹیکس بنتا ہے؛ جبکہ اگر آپ نقد ادائیگی کا انتخاب کرتے ہیں تو ٹیکس صرف 52.5 روپے بنتا ہے۔ یہ عمل صوبائی اقدامات سے بھی متصادم ہے، جیسے پنجاب میں کارڈ کے ذریعے ادائیگی پر سیلز ٹیکس 5 فیصد ہے جبکہ نقد پر 16 فیصد۔

مزید یہ کہ اب ای کامرس پلیٹ فارمز کو یہ توقع ہے کہ وہ دکانداروں کی جانب سے ٹیکس وصول کریں، بشرطیکہ وہ رجسٹرڈ ہوں۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ آن لائن دکانداروں کو روایتی ریٹیلرز پر ناجائز برتری حاصل ہے، جیسے کہ فزیکل ریٹیلرز واقعی مکمل ٹیکس ادا کر رہے ہوں۔

حقیقت یہ ہے کہ حکومت کا مقصد انصاف نہیں بلکہ آمدن ہے — اور یہ قیمت ای کامرس جیسے نوخیز شعبے کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ حکومت دعویٰ تو کرتی ہے کہ یہ اقدامات ڈیجیٹل معیشت کے لیے مفید ہیں، مگر عملی طور پر یہ نقد معیشت کو مزید مضبوط کرتے ہیں، مثلاً بینکوں سے نقد رقم نکلوانے پر مزید ٹیکس عائد کر کے۔

ایسی اور مثالیں بھی موجود ہیں جو پالیسی کے عدم تسلسل کو ظاہر کرتی ہیں۔ بعض شعبوں میں ٹیکس کم کیے جا رہے ہیں اور کچھ میں بڑھائے جا رہے ہیں — نہ کہ معیشت کی سمت درست کرنے یا ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے لیے، بلکہ صرف وہاں سے پیسہ اکٹھا کرنے کے لیے جہاں سے مخالفت کا خطرہ کم ہو۔

ایف بی آر کی ذہنیت اب بھی ”دو جمع دو“ سے آگے نہیں جا رہی۔ بظاہر، تنخواہوں اور سپر ٹیکس پر رعایت دی گئی ہے — یہ کسی سرمایہ کاری کے فروغ یا برین ڈرین روکنے کے لیے نہیں، بلکہ صرف اس لیے کہ لوگ رئیل اسٹیٹ اور اسٹاک مارکیٹ میں قیاس آرائی پر مبنی سرمایہ کاری کریں، جبکہ باقاعدہ بچت کی حوصلہ شکنی ہو۔ اصل مقصد مالیاتی اصلاحات کی بجائے محض مارکیٹ کے اعتماد کو سہارا دینا اور اصل مسائل پر پردہ ڈالنا معلوم ہوتا ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف