ہر سال پاکستان کا وفاقی بجٹ ایک رسمی انداز میں پیش کیا جاتا ہے: آمدنی کے حصول میں عجلت، اخراجات کم کرنے کے وعدے، قرض دہندگان سے منظوری کی امید اور آخر میں معیشت کی مزید بگڑتی ہوئی حالت کی وجہ سے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔
بجٹ جو اصل میں ترقی لانے اور مالی ذخائر بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہونا چاہیے اب صرف قرض دینے والوں کو خوش کرنے اور پرانے نظام کو برقرار رکھنے کا ایک وقتی حل بن چکا ہے۔
یہ صرف بجٹ سازی کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ایک بڑی سیاسی اور معاشی ناکامی ہے۔ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے ہمیں بجٹ کے تصور کو بنیادی طور پر بدلنا ہوگا — اسے صرف آمدنی اور خرچ کا حساب نہ سمجھا جائے، بلکہ معیشت کو سنبھالنے اور مسلسل ترقی کا ذریعہ بنایا جائے۔
بڑا حکومتی حجم
پاکستان کا بجٹ تاریخی طور پر حکومتی اخراجات میں مسلسل اضافے کے ساتھ بڑھا ہے۔ اس کی شروعات بھٹو کے دور میں فلاحی اور ترقیاتی منصوبوں کی بہتات سے ہوئی۔ تب سے، پے در پے حکومتوں نے اخراجات میں اضافہ جاری رکھا ہے، سیاسی سرپرستی کے نیٹ ورکس کو وسعت دی ہے اور قرضوں پر مبنی بے سود منصوبوں میں خود کو شامل رکھا ہے۔ اس لیے اب بجٹ کا بڑا حصہ ایک بھاری بھرکم اور غیر مؤثر سرکاری مشینری کھا جاتی ہے — جیسے وزارتیں، سرکاری ادارے، خاص طبقے کو دی جانے والی سبسڈیاں، اور تیزی سے بڑھتی ہوئی سول اور ملٹری پنشنز پر بہت زیادہ اخراجات آتے ہیں۔
ترقیاتی اخراجات (پی ایس ڈی پی) کی حالت بھی بہتر نہیں ہے۔ یہ یا تو سال کے درمیان کٹ جاتے ہیں یا سیاسی مقصد کے تحت ایسے تعمیراتی منصوبوں پر ضائع ہو جاتے ہیں جو نہ پیداوار بڑھاتے ہیں اور نہ ہی برآمدات کو فروغ دیتے ہیں۔ کئی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں عوامی سرمایہ کاری نجی سرمایہ کو راغب کرنے، روزگار پیدا کرنے یا مقابلہ بازی بڑھانے میں ناکام ہے۔ اسی لیے اس صدی میں اقتصادی ترقی مسلسل کمزور ہوتی جا رہی ہے۔
ٹیکسز کی بھار سے معشیت تباہ نہ کریں
آئی ایم ایف کے مطابق ہمارا ”ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کم ہے“، اس بنیاد پر وہ ہمارے مالی خسارے کو پورا کرنے کے لیے مزید ٹیکس لگانے کی تجویز دیتے ہیں۔ جب غیر حقیقی آمدنی کے اہداف پورے نہیں ہوتے توہ ہمیشہ اس کا حل اس طرح نکالتے ہیں کہ ”مزید ٹیکسز“، ”اضافی ٹیکسز“، ”سپرٹیکسز“ — جو پہلے ہی زیادہ ٹیکس دیے جانے والے شعبوں پر لگا دیے جاتے ہیں اور ایسا خاص کر مختصر مدت کے بجٹ اقدامات میں ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ ایک ایسا ٹیکس نظام جو عوام پر بھاری، غیر مستحکم اور ترقی کے خلاف ہو۔
پاکستان کا اصل مسئلہ صرف کم آمدنی نہیں بلکہ آمدنی کا ڈھانچہ ہے — جو پیچیدہ، مداخلت پسند اور غیر مستحکم ہے۔ اس کا نتیجہ ایک غیر منصفانہ، غیر متوازن اور سرمایہ کاری روکنے والا نظام نکلا ہے۔ جیسے جیسے سیاسی فراخدلی کے باعث خسارے بڑھتے گئے، عوامی قرض بھی بڑھتا گیا اور 2003 کے فسکل رسپانسبلٹی ایکٹ کے مقرر کردہ جی ڈی پی کے 60 فیصد کی حد سے تجاوز کر گیا — یہ قانون ایم ایف کے تعاون سے بنا تھا۔ آج وفاقی بجٹ کا پچاس فیصد سے زیادہ حصہ سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔
پھر بھی، وفاقی اور صوبائی حکومتیں فضول خرچی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ صرف مالی سال 2025 میں حکومتوں نے 60 سے زائد نئی سرکاری ایجنسیاں قائم کیں۔ لگتا ہے کہ کفایت شعاری صرف کتابوں میں رہ گئی ہے — ہماری سیاسی قیادت کے لیے نہیں۔
ایک اچھا بجٹ
بجٹ کو ترقی کی جانب لے جانے کے لیے ہمیں اپنی مالی حکمت عملی کو تین بنیادی اہداف کے گرد تشکیل دینا ہوگا: سرمایہ کاری کی سہولت، اقتصادی ڈھانچے کی تبدیلی، اور غیر ملکی زر مبادلہ کی پیداوار۔
ہماری مالیاتی ثقافت کنٹرول پر مبنی ہے۔ ہر اقتصادی سرگرمی کو کاغذی کارروائی، غیر ضروری منظوریوں، اور بیوروکریٹک بے ترتیبی سے دبا دیا جاتا ہے۔ بجٹ میں صرف وفاقی وزارتوں کو نہیں بلکہ شہروں، یونیورسٹیوں، اور نجی اختراع کاروں کو بھی با اختیار بنانا چاہیے۔
علاقائی حکومتیں دہائیوں سے ”رو بہ عمل“ آنے کا انتظار کر رہی ہیں۔ اگرچہ یہ مسئلہ بجٹ کے فوری دائرہ کار سے باہر ہے، مگر انتظامی اختیارات کی تقسیم اور ادارہ جاتی خودمختاری کو مناسب کارکردگی اور جوابدہی کے نظام کے ساتھ فروغ دینا بہت ضروری ہے۔
شاید سب سے زیادہ ضروری اور تاخیر شدہ اصلاح پلاننگ کمیشن اور پی ایس ڈی پی کی تنظیم نو ہے۔ حق/ہاک ماڈل کی بنیاد پر صرف تعمیراتی ترقی کو ایک پیداواری حکمت عملی میں تبدیل کرنا ہوگا۔
آئیں، پی ایس ڈی پی کو ایک مقابلہ جاتی گرانٹس کے فریم ورک میں تبدیل کریں — جو شہروں اور علمی اداروں کو جدت لانے کا اختیار دے اور جس کا انحصار تحقیق، شہری ترقی، اور کاروباری فروغ میں واضح نتائج پر ہو۔ اسی طرح، پلاننگ کمیشن کو ایک حقیقی اصلاحاتی ادارے میں تبدیل کیا جائے — جو بھاری بھرکم منصوبوں اور ایسے نظریات سے دور ہو جسے نہ کوئی پڑھتا ہے اور نہ ہی اس پر عملدرآمد کرتا ہے۔
اور ہاں اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اختیاری فنڈز اور سیاسی مفادات کے تابع اسکیموں کا خاتمہ کیا جائے۔
ٹیکس کی بے ترتیب وصولی بند کی جائے
ایک ہی ٹیکس بنیاد سے زیادہ سے زیادہ محصول حاصل کرنے کی کوشش معیشت کو خراب کر رہی ہے۔ ہمیں ٹیکس کے نظام کو آسان بنا کر، کم کر کے اور مستحکم کر کے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا ہوگا — نہ کہ بار بار ایک ہی اشیاء اور شعبوں پر ٹیکس لگا کر انہیں ختم کردیا جائے۔
جیسا کہ ہم نے 2024 کے Haque ٹیکس کمیشن کی رپورٹ میں بتایا ہے:
الف) ٹیکس کے قوانین کو آسان بنائیں اور پابندیوں کو کم کریں۔
ب) ودہولڈنگ اور ٹرن اوور ٹیکس کی جگہ ویلیو ایڈیڈ ٹیکس نظام لائیں، جس میں خودکار اور قابل اعتماد ریفنڈ ہو۔
ج) ٹیکس نظام میں شامل ہونے کے لیے دستاویزات کے تقاضے آسان کریں۔
د) ڈیجیٹل نظام اور انتظامی آسانیوں کے ذریعے ٹیکس کی بنیاد کو بڑھائیں۔
ہ) سب سے اہم بات، عجلت میں محصول بڑھانے کی کوششیں بند کریں جو معیشت میں عدم استحکام پیدا کرتی ہیں، اعتماد کمزور کرتی ہیں اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کو دور کر دیتی ہیں۔
معاشی امکانات پیدا کرنے کا بہترین وقت
آمدنی کی بڑھتی ہوئی تلاش نے محصولات کو ہر مسئلے کا حل بنا دیا ہے — یہاں تک کہ برآمدات بھی متاثر ہو رہی ہیں کیونکہ درآمدی محصولات عالمی سطح پر استعمال ہونے والے خام مال کی قیمت بڑھا رہے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم جرات مندانہ تبدیلی کریں: درآمد کی جگہ پیداوار کے نظریے کو چھوڑ دیں اور محصولات کو آمدنی کا سہارا بنانا بند کریں۔ بنیادی معاشیات یہ سکھاتی ہے کہ محصولات کا استعمال درکار زرمبادلہ کی ایڈجسٹمنٹ کو روکنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ محصولات کبھی بھی مسابقت کی حکمت عملی نہیں ہو سکتی۔ اگر ہم واقعی برآمدات کی بنیاد پر ترقی چاہتے ہیں — صرف نعرے بازی نہیں — تو ہمیں روپے کو اس کی اصل قیمت تلاش کرنے دینا ہوگا، معیشت کی بہتری کے امکانات پیدا کرنے ہوں گے اور حفاظتی رکاوٹوں کو ختم کرنا ہوگا۔
بجٹ کو ایک فعال اور شفاف دستاویز بنائیں
دو دہائیوں سے ہمارے پاس ورلڈ بینک کا ایک شاندار منصوبہ ہے — پِفرا یعنی ”پروجیکٹ ٹو امپرو فنانشل رپورٹنگ اینڈ آڈٹنگ“— مگر ابھی تک اس کا کوئی خاص نتیجہ نظر نہیں آیا۔ ہمیں آج بھی بنیادی بجٹ کی شفافیت میسر نہیں ہے۔ دنیا کے باقی ممالک کی طرح اب پاکستان میں بھی آمدنی اور اخراجات کی بنیاد پر بجٹ سازی (اکروئل بیسڈ بجٹنگ) اپنانا چاہیے۔
فائنانس وزیر کے لیے ایک معمولی تجویز ہے: اس سال پِفرا کو عوام کے لیے فعال کر دیں۔ حقیقی وقت میں ڈیٹا دکھانے والے آن لائن ڈیش بورڈز بنا کر شہریوں کو تمام اخراجات کے بارے میں جاننے کا موقع دیں۔
ترقی ہی واحد راستہ ہے
جبکہ معیشت کی رفتار سست ہو رہی ہے، ہمارا مالی بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ پرانے قرض، آئی ایم ایف کی امداد اور ڈیفالٹ سے نکلنے کا واحد طریقہ نجی شعبے کی قیادت میں مستقل ترقی کو تیز کرنا ہے۔
یہی بجٹ پالیسی کی بنیاد ہونی چاہیے: نجی سرمایہ کاری کو آج کے شرمناک 8-9 فیصد جی ڈی پی سے بڑھا کر پانچ سال میں 20 فیصد سے زیادہ کرنا ہوگا۔
قوانین کو آسان بنائیں۔ معاشی امکانات پیدا کریں۔ ٹیکس اور کاغذی کارروائی کو سادہ کریں۔ ایک ایسا نظام قائم کریں جو ترقی کو فروغ دے — نہ کہ ایسا جو ٹیکس کی بھاری ادائیگی کے لیے پریشان کرے اور پیسہ فضول منصوبوں، بڑے حجم پر مبنی حکومت اور سیاسی سفارشات پر خرچ کرے۔
Comments