پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس (پی بی ایس) کے مطابق جون 2025 کے دوران صارف قیمت اشاریہ (سی پی آئی ) میں کمی ریکارڈ کی گئی جو مئی کے مقابلے میں 3.2 فیصد رہی جبکہ مئی میں یہ شرح 3.5 فیصد تھی۔ صارف قیمت اشاریہ میں درآمدی افراطِ زر کے ساتھ ملکی طور پر تیار کردہ اشیاء کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے، درآمدی افراطِ زر کے تعین میں زرمبادلہ کی شرحِ تبادلہ کا نمایاں کردار ہوتا ہے جب کہ ملکی افراطِ زر کے حساب میں ٹیکسز، بالخصوص پیٹرول اور اس سے متعلقہ مصنوعات پر بھاری لیوی اور حالیہ عائد کردہ کاربن ٹیکس جیسے عوامل کو شامل کیا جاتا ہے جو ملک بھر میں اشیاء اور خدمات کی نقل و حمل کے بنیادی ذرائع ہیں۔

گزشتہ ایک سال کے دوران شرحِ تبادلہ کم و بیش مستحکم رہی ہے حالانکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) مسلسل اس مؤقف پر قائم ہے کہ شرحِ تبادلہ میں لچکداری شاکس کے اثرات کو کم کرنے اور زرمبادلہ ذخائر کی بحالی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اگرچہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ کے درمیان فرق آئی ایم ایف کی طے شدہ شرط کے مطابق ہے، لیکن مارکیٹ اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں یہ خدشات موجود ہیں کہ حکومت روپے کی قدر کو مینج کررہی ہے۔ اس تاثر کو اس حقیقت سے مزید تقویت ملتی ہے کہ ملک کے زرمبادلہ ذخائر مکمل طور پر قرضوں پر مبنی ہیں جن میں صرف دوست ممالک کی جانب سے دی گئی رول اوور سہولت 16 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے جب کہ 20 جون 2025 تک زرمبادلہ ذخائر 9.0645 ارب ڈالر تھے۔

ایندھن کی اصل ویٹ ایج دیگر یوٹیلیٹیز کے ساتھ ملا کر شمار کی جاتی ہے — خواہ وہ درآمدی خام مال پر انحصار کرتی ہوں یا نہ کرتی ہوں — جن میں رہائش، پانی، بجلی، گیس اور ایندھن شامل ہیں، اور ان تمام اشیاء کی مجموعی ویٹ ایج 23.63 فیصد بنتی ہے، تاہم پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس (پی بی ایس) کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خام تیل اور پٹرولیم سے منسلک مائع ہائیڈروکاربنز کو صارف قیمت اشاریہ (سی پی آئی) کی حساب کتاب میں محض 0.9994 کی کم ویٹ ایج دی گئی جبکہ حیران کن طور پر ٹھوس ایندھن — خصوصاً لکڑی، کوئلہ، پیٹ، اور خشک گوبر — کو اس سے چار گنا زیادہ یعنی 4.4761 کی ویٹ ایج دی گئی۔ شاید یہی وہ وجوہات میں سے ایک تھی جس پر آئی ایم ایف نے 10 اکتوبر 2024 کو جاری کردہ رپورٹ میں تشویش کا اظہار کیا، جو 2024 کی آرٹیکل IV مشاورت اور ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی (ای ایف ایف) کے تحت توسیعی معاہدے کی درخواست کے سلسلے میں شائع کی گئی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ فنڈ کو فراہم کردہ ڈیٹا عمومی طور پر زیادہ تر شعبوں میں مانیٹرنگ کے لیے کافی ہے، لیکن نیشنل اکاؤنٹس اور گورنمنٹ فنانس اسٹیٹسٹکس میں بعض کمزوریاں موجود ہیں جو مانیٹرنگ کی مؤثر صلاحیت کو کسی حد تک متاثر کرتی ہیں۔۔۔ اب بھی ایسے شعبوں میں بنیادی ڈیٹا کی کمی ہے جو مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی ) کے تقریباً ایک تہائی حصے کی نمائندگی کرتے ہیں جب کہ جی ایف ایس میں تفصیل اور درستگی کے حوالے سے بھی مسائل موجود ہیں۔ حکام ان کمزوریوں کو دور کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے فنڈ کے ٹیکنیکل اسسٹنس (ٹی اے) کے ساتھ ساتھ ایک نئے پروڈیوسر پرائس انڈیکس (پی پی آئی) کی مدد حاصل کی جا رہی ہے۔

کور افراطِ زر — جو خوراک اور توانائی کے شعبوں کو نکال کر ماپی جاتی ہے — اور جسے مانیٹری پالیسی کمیٹی (اہم پی سی) پالیسی ریٹ میں رد و بدل کرتے وقت اہمیت دیتی ہے، جون میں کم ہوکر 6.8 فیصد پر آ گئی، جو مئی میں 7.3 فیصد اور اپریل میں 8.2 فیصد تھی، یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت کے دوران مانیٹری پالیسی کمیٹی نے آئی ایم ایف سے اتفاق کیا تھا کہ پالیسی ریٹ کو کور افراطِ زر کے بجائے مجموعی صارف قیمت اشاریہ سے منسلک کیا جائے گا۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ موجودہ حکومت نے دوبارہ اسے کور افراطِ زر سے منسلک کر دیا ہے یا نہیں — اور یہ ابہام اس وجہ سے بھی پیدا ہوتا ہے کہ پالیسی ریٹ میں رد و بدل کی منطق الجھاؤ کا شکار ہے، کیونکہ یکم جنوری سے 5 مئی تک جب سی پی آئی 2.4 فیصد سے کم ہو کر اپریل میں 0.3 فیصد پر آ گئی، اور کور افراطِ زر بھی 7.8 فیصد سے کم ہو کر 7.4 فیصد پر آ گئی، تب بھی پالیسی ریٹ 12 فیصد پر برقرار رہا۔ پانچ مئی کو پالیسی ریٹ میں 100 بیسس پوائنٹس کی کمی کر کے اسے 11 فیصد کر دیا گیا، حالانکہ مئی 2025 میں صارف قیمت اشاریہ بڑھ کر 3.5 فیصد ہو گیا جبکہ کور افراطِ زر میں صرف 0.1 فیصد پوائنٹ کی معمولی کمی آئی اور یہ 7.3 فیصد پر آ گیا۔ اس تناظر میں آئی ایم ایف نے اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کی گئی پہلی جائزہ رپورٹ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ شرح سود میں تبدیلی کا فیصلہ معاشی اعداد و شمار کی بنیاد پر کرے تاکہ اس کی ساکھ میں اضافہ ہو۔

مہنگائی میں رواں سال اضافے کی توقع ہے کیونکہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جن انتظامی اقدامات پر اتفاق کیا ہے اُن کے تحت یوٹیلیٹی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے گا تاکہ مکمل لاگت کی وصولی کا ہدف حاصل کیا جاسکے اور سخت مالی و مانیٹری پالیسیوں پر عملدرآمد جاری رکھا جائے، تاہم کابینہ ملک میں بڑھتی ہوئی غربت کو نظر انداز کررہی ہے جو اب سب صحارا افریقہ کے ممالک جیسے خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ملک میں غربت کی شرح 44.2 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو اس امر کی متقاضی ہے کہ حکومت فوری طور پر مؤثر انسدادِ غربت پالیسیوں کی تشکیل کرے، آئی ایم ایف کو ان کی اہمیت پر قائل کرے، اور پھر ان پالیسیوں پر مکمل عزم اور خلوصِ نیت کے ساتھ عملدرآمد کو یقینی بنائے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025

Comments

200 حروف