امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کی رات اعلان کیا کہ امریکی افواج نے ایران کی تین بڑی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر تہران نے امن کی راہ اختیار نہ کی تو اسے مزید تباہ کن حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کئی دن کی مشاورت کے بعد، اپنی طے کردہ دو ہفتوں کی ڈیڈلائن سے بھی پہلے، ٹرمپ کا اسرائیل کی فوجی کارروائی میں شامل ہونے کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں ایک سنگین اضافہ ہے، جو ممکنہ طور پر خطے میں ایک نئے عدم استحکام کے دور کا آغاز کر سکتا ہے۔

ٹی وی پر نشر کیے گئے خطاب میں ٹرمپ نے ان حملوں کو شاندار فوجی کامیابی قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایران کی کلیدی جوہری افزودگی کی تنصیبات مکمل طور پر تباہ کر دی گئی ہیں۔

 ۔
۔

تین منٹ طویل خطاب میں ٹرمپ نے کہا کہ ایران کا مستقبل یا تو امن ہے یا تباہی، اور اگر امن نہ آیا تو امریکہ دیگر اہداف کو تیزی، مہارت اور درستگی کے ساتھ نشانہ بنائے گا۔

امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس نیوز کے مطابق، امریکہ نے ایران سے سفارتی رابطہ کر کے واضح کیا ہے کہ یہ حملے اس کی تمام تر کارروائی کا حصہ ہیں اور امریکہ حکومت کی تبدیلی کا ارادہ نہیں رکھتا۔

ٹرمپ نے کہا کہ امریکی افواج نے ایران کی تین اہم جوہری تنصیبات — نطنز، اصفہان اور فردو — کو نشانہ بنایا۔ فاکس نیوز کے پروگرام میں انہوں نے بتایا کہ فردو پر چھ بنکر بسٹر بم گرائے گئے جبکہ دیگر مقامات پر 30 ٹوماہاک میزائل فائر کیے گئے۔ ایک امریکی اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ ان حملوں میں B-2 بمبار طیارے شامل تھے۔

 ۔
۔

ٹرمپ نے ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا، ’’فردو پر مکمل بمباری کی گئی ہے۔ فردو اب باقی نہیں رہا۔‘‘

فردو جو تہران کے جنوب میں ایک پہاڑ کے نیچے واقع ہے، اس کی ساخت کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہے کہ ان حملوں کے نتائج کا تعین کرنے میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔

ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق، ایک ایرانی عہدیدار نے تصدیق کی ہے کہ ’’دشمن کے فضائی حملے‘‘ سے فردو کی تنصیب جزوی طور پر متاثر ہوئی ہے۔ تاہم، قم سے تعلق رکھنے والے ایرانی رکنِ پارلیمنٹ محمد منان رئیسی نے فارس نیوز کو بتایا کہ فردو کی تنصیب کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا۔

ایرانی میڈیا نے ایران کے جوہری ادارے کے حوالے سے بتایا کہ حملوں کے بعد کسی قسم کی تابکاری کا سراغ نہیں ملا اور نزدیکی آبادی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔

ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے کے نائب سیاسی سربراہ حسن عابدینی نے کہا کہ ان تینوں جوہری مراکز کو کچھ عرصہ قبل ہی خالی کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ افزودہ یورینیم کو ان مراکز سے منتقل کر دیا گیا تھا، لہٰذا وہاں اب کوئی ایسا مواد موجود نہیں جو تابکاری کا باعث بنے۔

سفارتکاری ناکام

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ٹرمپ کے اس اقدام کو ’’جرات مندانہ فیصلہ‘‘ قرار دیتے ہوئے انہیں مبارکباد دی۔

نیتن یاہو نے کہا کہ تاریخ یہ یاد رکھے گی کہ صدر ٹرمپ نے دنیا کے خطرناک ترین ہتھیاروں کو دنیا کے خطرناک ترین نظام کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے اقدام کیا۔

یہ حملے ایسے وقت ہوئے ہیں جب ایران اور اسرائیل ایک ہفتے سے زائد عرصے سے فضائی لڑائی میں مصروف ہیں، جس میں دونوں ممالک میں ہلاکتیں اور زخمی ہونے کے واقعات پیش آئے ہیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے یہ حملے کر رہا ہے، جبکہ ایران کا مؤقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

مغربی ممالک کی سفارتی کوششیں تاحال ناکام ہو چکی ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ہفتے کے روز کے ان حملوں کو ایسے خطے میں خطرناک بگاڑ قرار دیا جو پہلے ہی کشیدگی کے دہانے پر ہے، اور کہا کہ یہ عالمی امن و سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہیں۔

دونوں فریقین کی توانائی کے ڈھانچے پر حملوں — جن میں اسرائیل کا ایران کے جنوبی پارس گیس فیلڈ پر حملہ، ایران کا آبنائے ہرمز میں بحری جہازوں کو نشانہ بنانا — نے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اور عالمی معیشت پر ممکنہ منفی اثرات کے خدشات بڑھا دیے ہیں۔

امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگ سیٹھ اتوار کی صبح پینٹاگون میں پریس کانفرنس کرنے والے تھے۔ امریکی کانگریس کے کئی ڈیموکریٹ اور ریپبلکن اراکین نے حالیہ دنوں میں کہا تھا کہ ٹرمپ کو ایران کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی سے پہلے کانگریس سے اجازت لینا ضروری ہے۔

ریپبلکن سینیٹر راجر وِکر نے اس آپریشن کی تعریف کی مگر خبردار کیا کہ امریکہ اب انتہائی سنجیدہ فیصلوں کے دہانے پر ہے۔

ریپبلکن رکنِ کانگریس تھامس میسی نے کہا کہ یہ غیر آئینی ہے۔

ڈیموکریٹ کانگریس وومن الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے کہا کہ یہ واضح طور پر مواخذے کی بنیاد ہے۔

ٹرمپ کے حامی حلقے، خاص طور پر ایم اے جی اے ( میک امریکا گریٹ اگین) تحریک سے تعلق رکھنے والے افراد، بیرونی فوجی مداخلت کے مخالف سمجھے جاتے ہیں۔

ٹرمپ کے قریبی اتحادی اسٹیو بینن نے اپنے پوڈکاسٹ ’’وار روم‘‘ میں کہا کہ صدر کا خطاب شاید ان کے بہت سے حامیوں کے لیے تسلی بخش نہیں تھا، اور مطالبہ کیا کہ ٹرمپ وضاحت دیں کہ امریکہ کی شمولیت کیوں ضروری تھی۔

 ۔
۔

دوسری جانب ٹرمپ کے حامی مبصر چارلی کرک نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا ’’امریکہ صدر ٹرمپ کے ساتھ کھڑا ہے۔‘‘

اسرائیل نے 13 جون کو حملے شروع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے قریب پہنچ چکا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل خود جوہری ہتھیاروں کا حامل ملک سمجھا جاتا ہے، اگرچہ وہ اس کی تصدیق یا تردید نہیں کرتا۔

ایرانی سرکاری میڈیا نور نیوز کے مطابق، اسرائیلی حملوں کے بعد ایران میں اب تک کم از کم 430 افراد شہید اور 3,500 زخمی ہو چکے ہیں۔

مقامی حکام کے مطابق اسرائیل میں 24 شہری ہلاک اور 1,272 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

Comments

200 حروف