اسرائیل اور ایران کی فضائی جنگ دوسرے ہفتے میں داخل، یورپی سفارت کار کشیدگی کم کرانے کیلئے سرگرم
اسرائیل اور ایران کے درمیان فضائی جنگ جمعے کے روز دوسرے ہفتے میں داخل ہو گئی، جبکہ یورپی حکام تہران کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششوں میں لگے رہے۔ ادھر، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ جنگ میں امریکہ کی ممکنہ شمولیت سے متعلق فیصلہ آئندہ دو ہفتوں میں کیا جائے گا۔
اسرائیل نے گزشتہ جمعے کو ایران پر حملے شروع کیے، اس دعوے کے ساتھ کہ وہ اپنے دیرینہ دشمن کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنا چاہتا ہے۔ ایران نے اس کے جواب میں اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے کیے۔
ایران کا مؤقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم، اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں ایران میں اب تک 639 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جیسا کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کی نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا ہے۔
جاں بحق ہونے والوں میں ایران کی فوجی قیادت اور جوہری سائنسدان بھی شامل ہیں۔
ادھر اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایرانی میزائل حملوں میں کم از کم دو درجن (24) اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
رائٹرز ان ہلاکتوں کی تعداد کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔
مغربی اور علاقائی حکام کے مطابق، اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات، میزائل صلاحیتوں، اور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے حملے کیے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے جمعرات کو کہا کہ کیا ہم ایرانی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں؟ یہ ایک ممکنہ نتیجہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ ایرانی عوام پر منحصر ہے کہ وہ اپنی آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
ایران کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل میں فوجی اور دفاعی اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے، تاہم اس نے ایک اسپتال اور دیگر شہری مقامات کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیل نے جمعرات کو ایران پر الزام لگایا کہ وہ دانستہ طور پر شہری آبادی کو نشانہ بنا رہا ہے، خاص طور پر کلسٹر بموں کے استعمال کے ذریعے، جو وسیع علاقے میں چھوٹے چھوٹے بم بکھیر دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے اس پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
چونکہ دونوں ممالک پسپائی اختیار کرنے کو تیار نہیں، اس لیے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ اور یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ نے ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی سے جمعے کے روز جنیوا میں ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ اس کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے ملاقات سے قبل کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں تباہ کن مناظر کو روکا جائے اور علاقائی کشیدگی کو پھیلنے سے بچایا جائے، کیونکہ اس کا فائدہ کسی کو نہیں ہوگا۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی جمعرات کو ڈیوڈ لیمی سے ملاقات کی اور آسٹریلیا، فرانس اور اٹلی کے وزرائے خارجہ سے الگ الگ بات چیت کی تاکہ اس تنازع پر گفتگو کی جا سکے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ مارکو روبیو اور دیگر وزرائے خارجہ اس بات پر متفق تھے کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار تیار نہ کرے اور نہ حاصل کرے۔
ڈیوڈ لیمی نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر بھی یہی مؤقف دہرایا اور کہا کہ مشرق وسطیٰ کی صورت حال انتہائی خطرناک ہے اور اگلے دو ہفتوں میں سفارتی حل کے لیے ایک موقع موجود ہے۔
کریملن کے مطابق، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ دونوں نے اسرائیل کی مذمت کی اور کہا کہ کشیدگی کو کم کرنا ضروری ہے۔
امریکہ کا کردار اب بھی غیر واضح ہے۔
ذرائع کے مطابق، ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے پچھلے ہفتے سے اب تک ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی سے کئی بار بات کی ہے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ صدر ٹرمپ جمعے کی صبح قومی سلامتی سے متعلق ایک اجلاس میں شرکت کریں گے۔
صدر ٹرمپ کبھی ایران کو دھمکی دیتے ہیں اور کبھی یہ کہتے ہیں کہ تہران کو دوبارہ جوہری مذاکرات میں شامل ہونا چاہیے، جو اس جنگ کی وجہ سے معطل ہو چکے ہیں۔
میزائل حملے
جمعے کی صبح سویرے اسرائیلی فوج نے ایک نئے ایرانی میزائل حملے کی وارننگ جاری کی۔
کم از کم ایک میزائل اسرائیل کے جنوبی شہر بیر شیبہ پر براہ راست گرا، جو حالیہ دنوں میں کئی بار نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
یہ میزائل رہائشی عمارتوں، دفاتر اور صنعتی تنصیبات کے قریب گرا، جس سے زمین میں بڑا گڑھا پڑ گیا اور ایک اپارٹمنٹ کی عمارت کا سامنے کا حصہ تباہ ہو گیا، جبکہ کئی دیگر عمارتیں بھی متاثر ہوئیں۔
پیرامیڈک شافیر بوٹنر نے کہا کہ ہمارے پاس عمارت کے قریب ایک براہ راست حملہ ہوا ہے۔ یہاں نقصان خاصا شدید ہے۔
اسرائیلی سرکاری نشریاتی ادارے ”کان“ نے ایسی فوٹیج نشر کی جس میں دکھایا گیا کہ گاڑیاں آگ کی لپیٹ میں ہیں، دھوئیں کے گہرے بادل اٹھ رہے ہیں اور اپارٹمنٹس کی کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ شافیر بوٹنر کے مطابق، دھماکے میں کم از کم چھ افراد کو معمولی زخم آئے، اور ریسکیو ٹیمیں تاحال متاثرہ اپارٹمنٹس کی تلاشی لے رہی ہیں۔
جمعرات کو ایران نے بیر شیبہ کے ایک بڑے اسپتال کو نشانہ بنایا۔ ایران کا دعویٰ تھا کہ اسپتال کے قریب اسرائیلی فوجی ہیڈکوارٹر موجود تھا، تاہم اسرائیل نے اس دعوے کو مسترد کر دیا۔
اسرائیلی فوج نے یہ بھی کہا کہ اس نے ایرانی دارالحکومت تہران کے مرکز میں رات بھر کئی فضائی حملے کیے۔
فوج کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں میزائل تیار کرنے والی تنصیبات اور جوہری ہتھیاروں سے متعلق تحقیق و ترقی کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔
ٹرمپ نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ وہ ایران پر ممکنہ طور پر بنکر بسٹر بم سے حملہ کر سکتے ہیں، جو زمین کے اندر گہرائی میں بنے جوہری مراکز کو تباہ کر سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اگلے دو ہفتوں میں فیصلہ کریں گے کہ آیا امریکہ کو اس جنگ میں شامل ہونا چاہیے یا نہیں۔ تاہم یہ دو ہفتے کا وقت حتمی ڈیڈ لائن نہیں ہو سکتا۔
ٹرمپ ماضی میں بھی ”دو ہفتے“ کا وقت دیتے رہے ہیں، اور کئی سفارتی یا معاشی ڈیڈ لائنز کو ملتوی کرتے آئے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کو 1979 کے انقلاب کے بعد سے اب تک کا سب سے بڑا بیرونی خطرہ درپیش ہے، اور اس کے 46 سالہ اقتدار کو چیلنج کرنے کے لیے غالباً کسی عوامی بغاوت کی ضرورت ہو گی۔
تاہم، ماضی کی احتجاجی تحریکوں میں شامل کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ حالت میں بڑے پیمانے پر احتجاج کے لیے تیار نہیں، چاہے وہ حکومت سے نفرت ہی کیوں نہ کرتے ہوں، کیونکہ ملک اس وقت جنگ کی لپیٹ میں ہے۔
ایرانی انسانی حقوق کی معروف کارکن آتنا دائمی، جنہوں نے ایران میں چھ سال قید کاٹی اور اب ملک چھوڑ چکی ہیں، کہتی ہیں: لوگ سڑکوں پر کیسے نکلیں؟ ایسے ہولناک حالات میں تو لوگ صرف خود کو، اپنے خاندان کو، اپنے ہم وطنوں کو، اور یہاں تک کہ اپنے پالتو جانوروں کو بچانے پر دھیان دے رہے ہیں۔
Comments