وفاقی اور صوبائی بجٹس کی تیاریوں کا عمل اس وقت جاری ہے اور متعلقہ بجٹس کے اعلانات جون 2025 کے اوائل میں پیش کیے جائیں گے۔
مالی پالیسی کی تیاری کا اہم عنصر یہ ہوگا کہ 2025-26 کے بجٹ میں ٹیکس آمدنی اکٹھی کرنے کا ہدف کیا رکھے گی۔ مضمون میں اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے گی کہ وفاق اور چاروں صوبائی حکومتیں مل کر کتنا ریونیو حاصل کر سکتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ اندازہ لگایا جائے گا کہ 2024-25 میں ٹیکس سے کتنی آمدنی ہونے کا امکان ہے۔ اس کے بعد ٹیکس آمدنی کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جیسے ایف بی آر کی آمدنی، پٹرولیم لیوی، اور صوبائی حکومتوں کی ٹیکس آمدنی۔ پھر ان اندازوں کا موازنہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں دی گئی پیش گوئیوں سے کیا جائے گا جو خاص طور پر مارچ میں آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کے بعد کی گئی تبدیلیوں کو شامل کرنے کے بعد ہوگا۔
آئی ایم ایف اسٹاف رپورٹ کے مطابق 2024-25 میں مجموعی ٹیکس محصولات کا ہدف 14 ہزار 954 ارب روپے ہے۔ 86 فیصد سے زائد رقم ایف بی آر کے محصولات سے حاصل کی جائے گی جس کا ہدف 12 ہزار 913 ارب روپے ہے۔ بقیہ 1123 ارب روپے پیٹرولیم لیوی اور دیگر لیویز اور 918 ارب روپے صوبائی ٹیکس سے حاصل کیے گئے ہیں۔
مالی سال 2024-25 میں ٹیکس محصولات میں مجموعی شرح نمو کا ہدف 34 فیصد ہے۔ توقع ہے کہ ایف بی آر کے محصولات میں 38.7 فیصد اضافہ ہوگا۔ صوبائی ٹیکس محصولات میں 18.6 فیصد اور پیٹرولیم لیوی میں صرف 4.6 فیصد اضافے کا امکان ہے۔
وفاقی وزارت خزانہ کی جانب سے پہلے چھ ماہ کی مجموعی ٹیکس محصولات کی تفصیلات جاری کردی گئی ہیں۔ مجموعی شرح نمو 24.6 فیصد ہے۔ یہ 34 فیصد کے ہدف کی شرح نمو سے نمایاں طور پر کم ہے۔ اس طرح دسمبر کے آخر تک 500 ارب روپے کا ریونیو شارٹ فال ہو چکا تھا۔
مارچ 2025 کے آخر تک ایف بی آر کی مجموعی ٹیکس وصولیوں کے تازہ ترین اعداد و شمار دستیاب ہیں، جو 8,464 ارب روپے ہیں۔ اس میں پہلے ہی 700 ارب روپے سے زائد کی کمی موجود ہے۔ صوبائی حکومتوں کی ٹیکس آمدن میں بھی اب تک معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ البتہ، عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باعث پٹرولیم لیوی کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے جس سے ممکنہ طور پر 100 ارب روپے تک کی اضافی آمدنی حاصل ہو سکتی ہے۔
پہلے 9 ماہ کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہے کہ ایف بی آر کی 2024-25 میں کل آمدنی تقریباً 11,800 ارب روپے تک ہو گی۔ اس کا مطلب ہے کہ سالانہ ہدف میں 1,100 ارب روپے سے زیادہ کی کمی ہو گی۔ درحقیقت، ایف بی آر شاید وہ کم کیا گیا ہدف بھی حاصل نہ کر سکے جو مارچ میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد 12,300 ارب روپے مقرر کیا گیا تھا۔
اب اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ 2024-25 میں مجموعی ٹیکس آمدنی 13,700 ارب روپے ہو گی، یعنی ہدف سے تقریباً 1,250 ارب روپے کی کمی رہے گی۔ تاہم، یہ بات اہم ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ٹیکس آمدنی کا ہدف جی ڈی پی کا 12.3 فیصد مقرر کیا گیا تھا، جس سے ٹیکس-جی ڈی پی شرح میں 1.8 فیصد کا نمایاں اضافہ متوقع تھا۔
ممکنہ طور پر 2024-25 میں حقیقی جی ڈی پی کا حجم آئی ایم ایف کی ابتدائی پیش گوئی سے کم ہوگا۔ اس کے نتیجے میں مجموعی ٹیکس آمدنی جی ڈی پی کے 11.8 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ اس لیے کمی نسبتاَ کم ہوگی، جو کہ جی ڈی پی کے 0.5 فیصد کے قریب ہوگی۔
آئی ایم ایف پروگرام کے تحت اگلے سال کے لیے ایف بی آر کی آمدنی کا ہدف پندرہ ہزار ستر ارب روپے ہے۔ 2024-25 میں گیارہ ہزار آٹھ سو ارب روپے کی متوقع آمدنی کے ساتھ، اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تقریباً 28 فیصد کی زیادہ شرح نمو ضروری ہوگی۔ مختلف ٹیکس بیسز اس وقت افراط زر میں زبردست کمی کی وجہ سے کم شرح نمو دکھا رہے ہیں۔ لہذا ایف بی آر کی 28 فیصد کی شرح نمو کا ہدف حقیقت پسندانہ نہیں لگتا۔
آئی ایم ایف پروگرام کے مطابق 2025-26 میں ایف بی آر کی آمدنی کا جی ڈی پی کے ساتھ تناسب گیارہ فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے جو اصل پیش گوئی کے مطابق ہے۔ اس سال جب آمدنی جی ڈی پی کے قریب 10 فیصد ہے، ایک قابل عمل ہدف 2025-26 میں جی ڈی پی کے گیارہ فیصد کا ہوگا، تاکہ 2025-26 کے لیے اصل ہدف حاصل کیا جا سکے۔
ممکنہ طور پر 2025-26 میں جی ڈی پی کی شرح نمو 14 فیصد ہو گی۔ اس طرح 2025-26 کے لیے ایف بی آر کا مناسب ہدف 14,370 ارب روپے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ شرح نمو 21.8 فیصد ہو گی۔ 15,000 ارب روپے کا اصل ہدف حاصل کرنے کے لیے 2025-26 میں معیشت میں افراط زر کی شرح کا نمایاں طور پر زیادہ ہونا ضروری ہے۔
آئندہ برس صوبائی ٹیکس محصولات پر بھی توجہ مرکوز کیے جانے کا امکان ہے۔ 2025-26 میں ان محصولات کے لئے 74 فیصد کی غیر معمولی شرح نمو کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ اس توقع پر مبنی ہے کہ نیا زرعی انکم ٹیکس قانون یکم جولائی 2025 سے نافذ العمل ہوگا اور 2025-26 میں 500 ارب روپے سے زائد کا اضافی ریونیو اکٹھا ہوگا۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے آرے اے ایس ٹی اے ریسرچ پراجیکٹ کے حالیہ تخمینے کے مطابق فصل کی آمدنی پر زرعی آمدنی ٹیکس سے ممکنہ آمدنی 880 ارب روپے ہوگی جو 2023-24 کے ٹیکس بیس پر مبنی ہے۔ یہ جی ڈی پی کا 0.8 فیصد بنتی ہے۔ اس لیے انفرادی ٹیکس کی ذمہ داری کی مناسب اندازاور مؤثر وصولی کی صورت میں زرعی آمدنی ٹیکس سے 500 ارب روپے کی آمدنی حاصل کرنا ممکن ہے۔
پٹرولیم لیوی کا ہدف 2025-26 میں 1,193 ارب روپے حاصل کرنا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی اس ہدف کو بڑھا کر 1,400 ارب روپے تک لے جانے کی صلاحیت فراہم کر سکتی ہے۔
مجموعی طور پر 2024-25 کے ممکنہ نتائج اور 2025-26 کے لیے قابل عمل ٹیکس آمدنی کے ہدف کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا گیا ہے۔
اوپر دیے گئے اہداف 2025-26 میں ٹیکس آمدنی کے لیے مجموعی ہدف کو حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے جیسا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں جی ڈی پی کا 13 فیصد طے کیا گیا ہے۔
Comments