فنانس ایکٹ 2025 کے تحت کوریئر سروسز پر نئے ٹیکسز کے نفاذ کے بعد پاکستان کے ای کامرس شعبے کیلئے کاروباری لاگت میں نمایاں اضافہ ہوگیا ہے۔
صنعتی ماہرین کے مطابق ای کامرس شعبے میں لاجسٹک سروسز وہ نمایاں شعبہ ہے جس کی لاگت میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ کیش آن ڈلیوری (سی او ڈی) کے تحت مختلف اشیاء کی ترسیل پر 2 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس اور 2 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
بجٹ میں منظور شدہ نئے ضوابط کے تحت کوریئر کمپنیوں نے آن لائن سیلرسے ٹیکس کٹوتی کا آغاز کر دیا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے انہیں ٹیکس وصولی کا ایجنٹ نامزد کیا ہے، کیونکہ یہ کمپنیاں فروخت کنندگان کے انوائسز اپنے پاس رکھتی ہیں اور ترسیل کے عمل میں بطور واسطہ کردار ادا کرتی ہیں۔
فنانس بل کے تحت اب یہ کمپنیاں ای کامرس سیلرزکی جانب سے متعلقہ ٹیکسز کی وصولی اور جمع کرانے کی ذمہ دار ہوں گی۔
چیئرمین پاکستان ای کامرس ایسوسی ایشن (پی ای اے)عمر مبین نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیکس اقدامات منافع کی شرح کو کم کردیں گے اور صارفین پر اضافی بوجھ ڈالیں گے۔
آن لائن سیلرز نے صارفین کو متوجہ کرنے کے لیے رعایتوں اور مفت ڈلیوری کی سہولت فراہم کرتے ہوئے اپنے منافع کی شرح کم کردی ہے لیکن اب ان کے لیے کاروبار جاری رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے، دوسری جانب روایتی ریٹیل دکانیں بغیر کسی ٹیکس کی ادائیگی کے آزادانہ طور پر کام کررہی ہیں۔
اگرچہ بڑی ای کامرس مارکیٹ پلیسز ممکنہ طور پر بڑھتی ہوئی لاگت کا کچھ حصہ خود برداشت کر سکتی ہیں، تاہم ایس ایم ایزکیلئے ممکنہ طور پر یہ مالی بوجھ صارفین کو منتقل کرنا ناگزیر ہوگا تاکہ وہ اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکسز میں اضافے کے ساتھ ایندھن، بجلی، گیس اور انٹرنیٹ جیسے یوٹیلیٹی چارجز میں بڑھتی ہوئی قیمتیں پاکستان میں آن لائن کاروبار کے پہلے ہی محدود منافع کو مزید دبا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکسزمیں مسلسل اضافہ، ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور بجلی، گیس اور انٹرنیٹ جیسے یوٹیلیٹی اخراجات میں اضافہ، پاکستان میں آن لائن کاروبار کے پہلے سے ہی محدود منافع کو شدید متاثر کررہی ہیں۔
عمر مبین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ آن لائن سیلرز کو ٹیکس حکام کے ساتھ رجسٹریشن کیلئے ایک عبوری مدت فراہم کی جائے اور رجسٹرڈ مرچنٹس کیلئے 2فیصد ودہولڈنگ ٹیکس ختم کیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی سفارش کی کہ ٹیکس قوانین پر عملدرآمد کرنے والے فروخت کنندگان کے لیے محض 0.25 فیصد کا علامتی انکم ٹیکس متعارف کرایا جائے تاکہ ان پر مالی دباؤ کم ہو اور دستاویزی اور ڈیجیٹل نظام کو فروغ ملے۔
کوریئر کمپنیوں نے ای کامرس کاروباری اداروں اور انفرادی سیلرزکو مشورہ دینا شروع کر دیا ہے کہ وہ ٹیکس رجسٹریشن مکمل کریں تاکہ وہ اپنی ڈلیوری سروسز جاری رکھ سکیں۔ مناسب رجسٹریشن کے بغیر کوریئر کمپنیاں اور آن لائن مارکیٹ پلیسز ایسے آرڈرز کو پراسیس یا روانہ کرنے کی مجاز نہیں ہوں گی۔
تاہم نئے ای کامرس ٹیکس قوانین کے تحت ون ٹائم سیلراور گھریلو سطح پر سامان بیچنے والی خواتین کو لازمی رجسٹریشن سے استثنیٰ ہوگا۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ای کامرس کاروباری شخصیت عثمان اختر نے نئے ٹیکسز پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہزاروں نوآموز آن لائن فروخت کنندگان، جن میں بڑی تعداد طلبہ اور نوجوان پیشہ ور افراد پر مشتمل ہے، نے اپنے محدود وسائل اور محنت سے مستحکم کاروبار کھڑے کیے ہیں۔ انہوں نے نئے ٹیکس اقدامات کو نوجوان کاروباری طبقے کیلئےحوصلہ شکن اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہان نوجوان فروخت کنندگان کو اب نہ صرف اضافی ٹیکس بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے بلکہ ایک پیچیدہ رجسٹریشن کے عمل سے بھی گزرنا پڑ رہا ہے جو اکثر کیلئےقابلِ عمل نہیں ہے۔
عثمان اختر نے کہا کہ جہاں دیگر ممالک ای کامرس اور ڈیجیٹل شعبوں کو ٹیکس چھوٹ اور معاون پالیسیوں کے ذریعے فروغ دے کر کاروباری مواقع اور روزگار میں اضافہ کرتے ہیں وہیںکہ پاکستان کی محض فوری آمدن پر مبنی پالیسی طویل المدتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان میں ای کامرس کے بڑھتے ہوئے رجحانات کا غیرجانبدارانہ تجزیہ کرے اور آن لائن کاروبار پر ٹیکس ختم کرنے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کرے اور کم از کم آئندہ پانچ سال کے لیے ملک بھر میں اس شعبے کو ٹیکس سے مستثنٰی قرار دے۔
آن لائن فروخت کنندگان گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے رعایتیں اور مفت ڈلیوری فراہم کرتے ہوئے اپنے منافع میں نمایاں کمی کرتے ہیں، مگر اب ان کے پاس کاروبار جاری رکھنے کے امکانات محدود ہوتے جا رہے ہیں، جب کہ روایتی دکانیں، جو کسی قسم کا ٹیکس نہیں دیتیں، اس کے برعکس کہیں زیادہ آسانی سے کام کر رہی ہیں۔
تخمینوں کے مطابق، گزشتہ پانچ برس میں پاکستان کا ای کامرس شعبہ سالانہ 35 فیصد سے زائد کی شرح سے ترقی کر چکا ہے۔ آج ملک بھر میں ایک لاکھ سے زائد مائیکرو اور چھوٹے آن لائن فروخت کنندگان سرگرم ہیں، جو ایک ملین سے زائد افراد کے روزگار کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں نقد ادائیگی (سی او ڈی)پر مبنی ای کامرس کا مارکیٹ شیئر 90 فیصد سے زائد ہے۔ ملک میں ای کامرس کا کل حجم تقریباً 2.2 ٹریلین روپے (7.7 ارب ڈالر) کے لگ بھگ ہے، جو قومی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا محض 2 فیصد سے بھی کم بنتا ہے اور یہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں خاصا پیچھے ہے۔
Comments