وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پیر کو قومی اسمبلی کو آگاہ کیا کہ حکومت نے مقامی کاشتکاروں کی معاونت اور ملکی ٹیکسٹائل صنعت کو بحال کرنے کے لیے درآمدی کپاس اور دھاگے پر سیلز ٹیکس اور ڈیوٹی کی چھوٹ واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
فنانس بل 2024-25 پر بحث سمیٹتے ہوئے اپنی تقریر میں وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے چند سال قبل برآمدات کے فروغ کے لیے ایک سہولت اسکیم متعارف کرائی تھی جس کے تحت برآمد کنندگان کو خام مال ڈیوٹی اور ٹیکس سے مستثنیٰ حالت میں درآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
تاہم انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ تین برسوں کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ درآمدی کپاس اور دھاگے اور مقامی طور پر تیار کردہ اشیاء کے درمیان قیمتوں میں نمایاں فرق موجود ہے جس سے کپاس کے کاشتکاروں کو نقصان پہنچا۔
ان چھوٹ کو ختم کرنے کے فیصلے کے حوالے سے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد مقامی کپاس کی پیداوار میں اضافہ، اسپننگ ملوں کی بحالی اور زرمبادلہ ذخائر کا تحفظ ہے۔
انہوں نے مالی سال 2025-26 کے لیے 36 ارب روپے کے اضافی ٹیکس اقدامات کا اعلان بھی کیا تاکہ سولر پینلز پر سیلز ٹیکس میں کمی کے باعث پیدا ہونے والی ریونیو کمی کا ازالہ کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے معیشت کے استحکام اور شمولیتی ترقی کے فروغ کے لیے مالیاتی اصلاحات اور سماجی اخراجات سے متعلق متعدد اقدامات کا خاکہ بھی پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایک متوازن بجٹ پیش کیا ہے جس کا محور ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرنا، ٹیکس ادائیگی میں بہتری لانا، اخراجات پر قابو پانا اور شفافیت کو فروغ دینا ہے۔ اُن کے بقول: “حکومتی اخراجات کو قابو میں رکھنے اور مالیاتی نظم و ضبط کو یقینی بنانے کے لیے ہم نے مجموعی قومی پیداوارکے صرف 0.25 فیصد کے برابر نئے ٹیکس متعارف کرائے ہیں۔ ہمارا زور موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے پر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نظرثانی شدہ مالیاتی منصوبے کے اہم نکات میں ڈیجیٹلائزیشن کو فروغ دینا، ٹیکس قوانین میں ترامیم اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بوجھ میں نرمی شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم تعمیراتی صنعت کو سہولت دے رہے ہیں، ماحولیاتی ٹیکس اصلاحات متعارف کرارہے ہیں اور کاروباری لاگت کو کم کرنے، اسمگلنگ کی روک تھام اور برآمدات کے فروغ کے لیے ٹیرف میں تدریجی اصلاحات کر رہے ہیں… یہ اصلاحات مرحلہ وار نافذ کی جائیں گی۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ صنعتی شعبے کی بحالی کی کوششیں جاری ہیں اور جلد ہی ایک صنعتی پالیسی کا اعلان کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت الیکٹرک وہیکل پالیسی کے حوالے سے مشاورت بھی کررہی ہے۔
حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اہم اقدامات میں وزیرخزانہ اورنگزیب نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے بجٹ میں نمایاں اضافہ کو اجاگر کیا—جو 592 ارب روپے سے بڑھا کر 716 ارب روپے کر دیا گیا ہے، جس سے تقریباً ایک کروڑ خاندان مستفید ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مستحق افراد کو ہنر مندی کی تربیت کے ذریعے بااختیار بنانا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے پاکستان کے پہلے اسکلز امپیکٹ بانڈ کا بھی اعلان کیا جو برٹش ایشین ٹرسٹ کے تعاون سے متعارف کرایا جا رہا ہے اور جس کا مقصد نتائج پر مبنی ہنر مندی کی تربیت فراہم کرنا ہے۔
وزیر خزانہ نے ایک اہم زرعی منصوبے کا بھی اعلان کیا جس کے تحت چھوٹے کاشتکاروں کو بغیر ضمانت کے ڈیجیٹل قرضے فراہم کیے جائیں گے جو ایک لاکھ روپے تک ہوں گے۔ یہ قرضے بیج، کھاد اور ڈیزل جیسے زرعی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے دیے جائیں گے۔ کسانوں کی مدد کے لیے ایک الیکٹرانک ویئر ہاؤس رسیدی نظام بھی متعارف کرایا جائے گا، تاکہ وہ اپنی فصل محفوظ طریقے سے ذخیرہ کرسکیں اور بہتر قیمت پر فروخت کرسکیں۔
رہائش کے شعبے میں انہوں نے بتایا کہ حکومت کم آمدنی والے افراد کے لیے 20 سالہ کم لاگت رہائشی فنانسنگ اسکیم شروع کرے گی جو اُن افراد کے لیے ہوگی جو پہلی بار گھر خریدرہے ہیں۔
محمد اورنگزیب نے خواتین کی مالی شمولیت میں پیشرفت کو بھی اجاگر کیا اور بتایا کہ ویمن انکلوسیو فنانس پروگرام کے تحت اب تک 193,000 خواتین کو 14 ارب روپے کے قرضے دیے جا چکے ہیں، جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی مدد سے آئندہ سال کے لیے بھی اتنی ہی رقم مختص کی گئی ہے۔
محمد اورنگزیب نے اصل بجٹ میں متعدد ترامیم کی تفصیلات بھی پیش کیں جن میں تنخواہ دار افراد کے لیے انکم ٹیکس میں مزید کمی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر سالانہ 32 لاکھ روپے تک کی آمدن پر ٹیکس کی شرح کم کی گئی تھی۔ 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے کی آمدن پر ٹیکس کو 5 فیصد سے کم کر کے 2.5 فیصد کیا گیا تھا، لیکن وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر اب یہ شرح مزید گھٹا کر صرف 1 فیصد کر دی گئی ہے۔
پنشن پر ٹیکس کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمی کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف وہ افراد جو سالانہ 1 کروڑ روپے سے زائد پنشن حاصل کرتے ہیں اُن پر ٹیکس لاگو ہوگا جبکہ 75 سال سے زائد عمر کے پنشنرز مکمل طور پر مستثنیٰ ہوں گے۔
درآمدی سولر پینلز پر مجوزہ 18 فیصد سیلز ٹیکس میں بھی ترمیم کردی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اب یہ شرح کم کرکے 10 فیصد کر دی گئی ہے اور یہ بھی صرف 46 فیصد اجزاء پر لاگو ہوگی جس کا مطلب ہے کہ مجموعی طور پر قیمت میں صرف 4.6 فیصد کا معمولی اضافہ ہوگا۔ انہوں نے منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور خبردار کیا کہ حکومت ایسے رویوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔
ایف بی آر کے اختیارات میں مجوزہ ترامیم کے حوالے سے بھی تبدیلیوں کا اعلان کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ 50 لاکھ روپے سے کم مالیت کے کیسز میں گرفتاری اب عدالت کے وارنٹ سے مشروط ہوگی اور مخصوص شرائط کی تکمیل لازمی ہوگی۔ نگرانی کے لیے ایف بی آر کی تین رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور 24 گھنٹوں کے اندر ملزم کو خصوصی جج کے سامنے پیش کرنا لازمی ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی کی بیشتر سفارشات بجٹ میں شامل کر لی گئی ہیں۔ ان میں ایک اہم تبدیلی ای کامرس پر ٹیکس عائد کرنے کے طریقہ کار میں نظرثانی ہے جس کے تحت مائیکرو اور چھوٹے کاروباری اداروں کو آسان ٹیکس نظام میں منتقل کیا جائے گا۔
نان فائلرز پر اقتصادی لین دین کی پابندیوں سے متعلق خدشات کا جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ بعض رعایتیں دی گئی ہیں: رہائشی جائیداد کی خریداری پر 5 کروڑ روپے تک، کمرشل جائیداد پر 10 کروڑ روپے تک، اور گاڑیوں کی خریداری پر 70 لاکھ روپے تک کی حد مقرر کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ حدود بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے نظرثانی کے تحت تبدیل کی جا سکتی ہیں۔
وزیرخزانہ نے خطے میں عدم استحکام کے خدشے کا بھی اظہار کیا، خاص طور پر ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کا حوالہ دیتے ہوئے، جو معیشت پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے 14 جون کو اس حوالے سے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی ہے جو ان حالات پر نظر رکھے گی اور مربوط حکومتی ردعمل کو یقینی بنائے گی۔
اختتامی کلمات میں وزیر خزانہ نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ارکان، کمیٹی چیئرپرسنز اور معاشی ماہرین کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان، سلیم مانڈوی والا، نوید قمر اور فنانس و ریونیو کمیٹیوں کے تمام اراکین کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی قیمتی تجاویز میں سے کئی کو بجٹ میں شامل کیا گیا۔ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف، مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کی کاوشوں کو بھی سراہا اور کہا کہ اس بجٹ کی تیاری میں ان کی رہنمائی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
انہوں نے اپنی تقریر کے اختتام پر کہا کہ معاشی بحالی کے لیے قومی اتفاقِ رائے ناگزیر ہے۔ آئیں مل کر پاکستان کا روشن مستقبل تعمیر کریں۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025
Comments