فنانس بل 26-2025 میں مختلف ٹیکس قوانین، جن میں انکم ٹیکس آرڈیننس 2001، سیلز ٹیکس ایکٹ 1990، اور فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005 شامل ہیں، کے درمیان مسودے کی غلطیاں اور تضادات پائے گئے ہیں۔
ٹیکس ماہرین نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ پالیسی ساز عرصے سے ان تینوں ٹیکس قوانین کے متوازی دفعات کو ہم آہنگ بنانے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ یہ تمام قوانین فیلڈ فارمیشنز میں ایک ہی افسر کے تحت نافذ کیے جاتے ہیں۔ تاہم، فنانس بل 2025 کے ذریعے ماضی کی پالیسی اور طریقہ کار کے برخلاف بعض متضاد ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں ان تینوں قوانین میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ شوکاز نوٹس جاری ہونے کے بعد ایک مخصوص مدت کے اندر اسیسمنٹ آرڈر جاری کیا جانا لازمی ہے، اور سپریم کورٹ نے مختلف فیصلوں میں اس مدت کی پابندی کو لازمی قرار دیا تھا۔
تاہم، فنانس بل کے ذریعے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعہ 122(9) کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ شوکاز نوٹس جاری ہونے کے بعد اسیسمنٹ آرڈر کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں رہے گی، اور یہ آرڈر اس مالی سال کے اختتام سے پانچ سال کے اندر اندر کسی بھی وقت جاری کیا جا سکے گا، جس میں متعلقہ انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرایا گیا ہو۔
اس کے برعکس، سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی دفعہ 11G اور فیڈرل ایکسائز ایکٹ کی متعلقہ دفعات میں اس مدت کا تعین اب بھی موجود ہے۔ ایک ہی افسر کی نگرانی میں نافذ کیے جانے والے مختلف قوانین میں اس قسم کا فرق انصاف اور برابری کے اصولوں کے منافی ہے۔
جب اس بارے میں لاہور کے ٹیکس ماہر شاہد جامی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اگرچہ وفاقی حکومت نے انوملیز کمیٹیاں قائم کی ہیں، لیکن اس نوعیت کے باریک قانونی تضادات ان کمیٹیوں کے دائرہ کار میں نہیں آتے اور وہ انہیں ”انوملی“ نہیں سمجھتیں۔
انہوں نے سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی دفعہ 46(1) میں ایک مسودے کی غلطی کی نشاندہی بھی کی، جس کے تحت اپیلیٹ ٹربیونل میں اپیل کا حق صرف کمشنر (اپیل) کے فیصلے کے خلاف دیا گیا ہے، جبکہ ماضی کی دہائیوں سے رائج قانون کے برعکس، زونل کمشنر یا ایف بی آر کے تحت جاری کیے گئے احکامات کے خلاف اپیل کا حق شامل نہیں کیا گیا۔
شاہد جامی نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تبدیلی پالیسی میں دانستہ ترمیم نہیں بلکہ صرف مسودے کی غلطی ہے، کیونکہ تجویز کردہ ترمیم میں ”اس ایکٹ اور اس کے تحت بنائے گئے رولز کے تحت“ کے الفاظ تو شامل ہیں، لیکن زونل کمشنر اور ایف بی آر کے اختیارات کا ذکر موجود نہیں۔
ماہرین نے زور دیا کہ ٹیکس گزاروں کے حقوق کے تحفظ اور ٹیکس قوانین میں یکسانیت کے لیے ان مسودے کی غلطیوں اور تضادات کو فوری طور پر فنانس بل سے دور کیا جائے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments