پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی قانونی حیثیت ایک پیچیدہ قانونی اور مالی مسئلہ بن چکی ہے۔

حکومت پاکستان نے فروری 2025 میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کی سربراہی میں پاکستان کرپٹو کونسل (پی سی سی) قائم کی۔

بلال ثاقب کی بطور پی سی سی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور بعد ازاں وزیر اعظم کے خصوصی معاون برائے بلاک چین اور کرپٹو کرنسی تقرری نے ڈیجیٹل اثاثوں کو قومی گفتگو میں ایک علامتی بلندی دی ہے۔

پی سئ سی کا کرپٹو مائننگ کے لیے 2000 میگاواٹ بجلی مختص کرنے اور پاکستان ڈیجیٹل اثاثہ اتھارٹی کے قیام کے اعلان جرات مندانہ اقدامات ہیں، مگر لائسنسنگ کے فریم ورک ابھی تیار ہونا باقی ہیں۔ اگرچہ ورلڈ لبرٹی فنانشل کو ایک اہم مشاورتی ادارہ بنانے کی خبریں بین الاقوامی توجہ کا باعث بنی ہیں، لیکن ملکی سطح پر طریقہ کار کی وضاحت ابھی تک موجود نہیں۔

پی سی سی کے قیام کو چار ماہ گزرنے کے باوجود کوئی ’وائٹ پیپرز‘، مشاورتی مسودے یا عوامی مشاورت کے فورمز نہیں بنے جہاں ماہرین کی رائے یا صنعت کی ہم آہنگی حاصل کی جا سکے۔ ایسے بنیادی مکالمے کی عدم موجودگی ریگولیٹری ابہام اور بامعلومات عوامی پالیسی کے خلا کو جنم دیتی ہے۔

صنعت قیاس آرائی کے ماحول میں کام کر رہی ہے جہاں نہ تو قانونی ماڈل معلوم ہے اور نہ ہی عملی طریقہ کار۔ اس غیریقینی صورتحال سے اسٹیک ہولڈرز مایوس ہیں، جدت پسندی متاثر ہوتی ہے اور لازمی تعمیل کے اقدامات میں تاخیر ہوتی ہے۔

بلال ثاقب کے لاس ویگاس میں بٹ کوائن 2025 کانفرنس میں اعلان نے پاکستان کے سرکاری بٹ کوائن اسٹریٹیجک ریزرو قائم کرنے کے ارادے کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا اور معاملے کو بڑھاوا دیا۔

امریکہ کو ایک مثالی ماڈل کے طور پر پیش کرنے سے اس بیان کو جغرافیائی سیاسی رنگ بھی ملا، لیکن اس اعلان نے شدید خدشات کو جنم دیا۔

بٹ کوائن جیسے انتہائی غیر مستحکم اثاثے میں اسٹریٹیجک ریزرو بنانے کا تصور بغیر کسی واضح رسک کنٹرولز، قانونی پشت پناہی یا کثیرالطرفہ حمایت کے، خاص طور پر جب کہ آئی ایم ایف کا فعال پروگرام جاری ہو، ادارہ جاتی، آئینی اور بین الاقوامی کشیدگیوں کی صورتحال پیدا کرتا ہے۔

آئی ایم ایف کرپٹو کرنسی کو ریزرو اثاثہ یا قانونی ٹینڈر کے طور پر تسلیم نہیں کرتا، جو خود مختار وعدوں سے ہم آہنگی کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔

موجودہ قانونی ڈھانچہ، جس میں آئین پاکستان، اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956 اور پاکستان کرنسی ایکٹ 1950 شامل ہیں، کسی بھی متوازی کرنسی نظام یا سرکاری منظور شدہ آلات سے باہر اسٹریٹیجک ریزروز کی اجازت نہیں دیتا۔

خطرات بڑھ جاتے ہیں جب غیر ملکی زر مبادلہ ریزرو کی بدانتظامی، سائبر سکیورٹی کے خطرات، شفافیت کی کمی، محدود لیکوئڈیٹی کے استعمال، ساکھ کو لاحق خطرات اور پالیسی کی نازک ساکھ جیسے عوامل کو مدنظر رکھا جائے۔

پی سی سی کے سی ای او کی ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں وضاحت نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ ان کے اس دعوے کہ پاکستان اپنی بٹ کوائن ریزروز ضبط شدہ کرپٹو اثاثوں سے بنائے گا، نہ کہ عوامی فنڈز سے، بین الاقوامی اثاثہ ضبطی کے قوانین کی واضح نا سمجھی کو ظاہر کرتا ہے۔ امریکہ جیسے ممالک میں ضبط شدہ کرپٹو کا مالک ملزم ہی رہتا ہے جب تک کہ عدالتی ضبطی کا عمل مکمل نہ ہو جائے۔

قانونی منتقلی کا عمل عدالت کے حکم کا متقاضی ہوتا ہے، جس کے بعد اثاثے متاثرین کو واپس کیے جاتے ہیں، اداروں کے پاس رکھے جاتے ہیں یا نقد رقم میں تبدیل کرکے خزانے میں جمع کرائے جاتے ہیں۔ امریکی حکومت ضبط شدہ کرپٹو کرنسی کو ریزرو میں نہیں رکھتی بلکہ ضبطی کے بعد نیلام کرتی ہے۔

پی سی سی کے سی ای او کی اس ناقص سمجھ بوجھ اور غیر واضح رابطے نے ملک کی ریگولیٹری تیاری کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس نے پاکستان کی عالمی سطح پر پہلے سے ہی نازک ساکھ کو مزید کمزور کیا ہے۔

اپنی معاشی نازک صورتحال کے باوجود، پاکستان دنیا کے دس کرپٹو دوستانہ ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے صارفین کی تعداد 2026 تک 28.9 ملین تک پہنچنے کا امکان ہے، اور 2025 میں آمدنی 2.4 ارب ڈالر ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ کرپٹو کرنسی کی قانونی حیثیت ایسی غیر مستحکم معاشی صورتحال میں مالی خودمختاری اور مالی شعبے کی استحکام کے لیے وجودی خطرات پیدا کرتی ہے۔

کرپٹو کرنسی کو غیر منظم انداز میں اپنانا روپے پر اعتماد کو کمزور کر سکتا ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مہنگائی کنٹرول کرنے کی صلاحیت متاثر کر سکتا ہے، اور سرمایہ کی ملک سے فرار کو بڑھاوا دے سکتا ہے۔ مالیاتی انتشار کا خطرہ بھی بڑھتا ہے کیونکہ صارفین غیر مرکزی مالیاتی نظام کی طرف رجحان رکھتے ہیں، جو باقاعدہ بینکاری ڈھانچے کو نظرانداز کرتا ہے۔ ۔۔ یہ صورتحال نظام میں عدم استحکام اور عالمی ریگولیٹری اداروں خاص طور پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) اور آئی ایم ایف کی جانب سے سخت نگرانی کے دوہری خطرات کو جنم دیتی ہے۔ ایسی حالتوں میں ایک مناسب حکمت عملی یہ ہوگی کہ کرپٹو کو سختی سے ایک ڈیجیٹل اثاثہ کی کلاس کے طور پر تسلیم کیا جائے، نہ کہ قانونی ٹینڈر کے طور پر۔

اثاثہ کے اس ماڈل سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خودمختاری برقرار رہے گی جبکہ سخت ریگولیٹری شرائط کے تحت جدت کی اجازت بھی دی جا سکے گی۔

لائسنس یافتہ ورچوئل اثاثہ سروس پرووائیڈرز کا ایک منظم نظام پاکستان کی ڈیجیٹل اثاثہ حکمت عملی کی بنیاد ہونا چاہیے۔

ایکسچینجز، والٹس، اور کسٹوڈیئنز کو سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زیرِ نگرانی سخت ریگولیٹری فریم ورک میں کام کرنا چاہیے، جس میں لازمی ”اپنے گاہک کو جانیں“ (کے وائے سی)، منی لانڈرنگ مخالف (اے ایم ایل) پروٹوکولز، لین دین کی رپورٹنگ، اور آڈٹ میکانزم شامل ہوں۔

ایک ریگولیٹری سینڈباکس ماحول کی تشکیل کنٹرولڈ تجربات کی اجازت دے گی جو ریگولیٹری اداروں کی نگرانی میں ہوں گے۔ یہ طریقہ کار تکنیک سیکھنے، پالیسی سازی، اور خطرات کی شناخت میں مدد دے گا بغیر کسی قومی سطح پر خطرے کے۔ ابتدا میں کرپٹو کے سرحد پار استعمال کو محدود کرنا چاہیے تاکہ سرمایہ کی روانی کو روکا جا سکے اور زر مبادلہ کی استحکام برقرار رہے۔

حکومت کو خود کو کسی بھی خود مختار کرپٹو ریزرو کے خیال سے دور رکھنا چاہیے اور اس کے بجائے بلاک چین کو عوامی خدمات جیسے ٹوکنائزڈ بانڈز، ڈیجیٹل زمین کے اندراجات، فلاحی پروگرامز، اور لاجسٹکس ٹریکنگ میں شامل کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔

اس وقت ڈیجیٹل اثاثوں کے لیے مخصوص قانون سازی نہایت ضروری ہے۔ قانونی فریم ورک مختلف ٹوکن کی اقسام کی درجہ بندی کرے، کسٹوڈیئل ذمہ داریوں کا تعین کرے، صارفین کے تحفظ کے میکانزم واضح کرے، اور عالمی مالیاتی قواعد و ضوابط کی تعمیل کو یقینی بنائے۔

ریگولیٹری صلاحیتوں کو بھی بیک وقت ترقی دینا ضروری ہے۔ ریگولیٹرز، قانون نافذ کرنے والے اداروں، فارنزک آڈیٹرز، اور عدالتی حکام کے لیے تربیتی پروگرام قائم کیے جائیں تاکہ موثر نگرانی کے لیے ادارہ جاتی مہارت حاصل کی جا سکے۔

پاکستان کے ڈیجیٹل مستقبل کے حوالے سے بین الاقوامی سرمایہ کاری کے بیانیے کو نئے سرے سے مرتب کرنا چاہیے۔

پاکستان کو اسلام آباد میں ایک ’کرپٹو سمٹ‘ منعقد کرنا چاہیے، جس کے بعد لاہور اور کراچی میں علاقائی اجلاس منعقد کیے جائیں۔ یہ سمٹس محض پی آر مہمات نہیں بلکہ پالیسی سازی کے فورمز ہونے چاہئیں، جو عالمی بلاک چین کمپنیوں کو پاکستانی فن ٹیک، بینکوں، تعلیمی اداروں، اور اسٹارٹ اپس کے ساتھ جوڑیں۔ یہ پلیٹ فارمز اگلی نسل کے ڈیولپرز، ریگولیٹرز، اور کاروباریوں کو تعلیم اور رہنمائی بھی فراہم کریں۔

ہدف ایک اعتماد پر مبنی عوامی-نجی شعبہ کا ماحولیاتی نظام قائم کرنا ہونا چاہیے جو ڈیجیٹل اثاثہ جدت کو محفوظ اور پائیدار طریقے سے منظم، وسعت، اور گورننس کر سکے۔

وسیع ادارہ جاتی ماحولیاتی نظام کی کارکردگی کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور اصلاحات کی جانی چاہیے۔ پی سی سی، جتنا کہ اس کے جرات مندانہ بیانات ہیں، شفافیت کی کمی کا شکار ہے۔ یہ مشاورتی عمل، تکنیکی دستاویزات، یا اسٹیک ہولڈر سے مشاورت شروع کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کا کام تقریروں اور علامتی بیانات تک محدود ہے جس میں قابل پیمائش پیش رفت یا شمولیت نہیں۔

سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کا غیرفعال کردار بھی دور کیا جانا چاہیے۔ ایس آئی ایف سی کو پاکستان کی کرپٹو معیشت کی ترقی میں قیادت سنبھالنی چاہیے، شروع میں عالمی سمٹس کے انعقاد کے ذریعے جو ریگولیٹری نظام کو بین الاقوامی بہترین معیارات کے مطابق وسعت دیں۔

اسٹریٹجک وژن کو محفوظ انضمام، ریگولیٹری بلوغت، اور نجی شعبے کی شرکت کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ عالمی ڈیجیٹل معیشت پاکستان کو ایک منفرد موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ خود کو ایک مقابلہ جاتی، محفوظ، اور جدت پسند مرکز کے طور پر دوبارہ متعارف کرائے۔

پاکستان میں کرپٹو کا مستقبل روشن ہے، جو نوجوان آبادی، کاروباری جذبہ، اور غیر مرکزی انفراسٹرکچر کے ذریعے ادارہ جاتی رکاوٹوں کو عبور کرنے کی صلاحیت پر مبنی ہے۔ درست قانونی ڈھانچہ، بین الاقوامی تعاون، اور حکمرانی میں شفافیت اس صلاحیت کو ایک طاقتور قومی اثاثہ میں تبدیل کر سکتی ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف