ڈالر کی ششماہی کارکردگی 50 سال کی بدترین سطح پر، ماہرین نے ٹرمپ کی پالیسیوں کو ذمہ دار قرار دیدیا
سال 2025 کے پہلے چھ مہینوں میں امریکی ڈالر کی کارکردگی گزشتہ 50 سال کی بدترین سطح پر پہنچ گئی ہے، کیونکہ عالمی مالیاتی منڈیاں جغرافیائی کشیدگی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں کے باعث شدید دباؤ کا شکار رہیں۔
سال کے آغاز سے اب تک امریکی ڈالر کرنسیوں کی ایک باسکٹ کے مقابلے میں 10.8 فیصد گر چکا ہے، جو کہ 1973 کے بعد کسی بھی سال کی پہلی ششماہی کی بدترین کارکردگی ہے۔ اس سے قبل اس نوعیت کی بدترین گراوٹ 1991 کی دوسری ششماہی میں دیکھنے میں آئی تھی۔
ڈالر کی گراوٹ کے باعث ڈالر انڈیکس مارچ 2022 کے بعد اپنی کم ترین سطح پر آ گیا ہے، جبکہ برطانوی پاؤنڈ تین سال کی بلند ترین سطح یعنی 1.37 ڈالر تک جا پہنچا ہے، جو سال کے آغاز پر 1.25 ڈالر تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاروں نے امریکی معیشت پر ٹرمپ کی پالیسیوں کے اثرات پر تشویش کے باعث ڈالر کی فروخت کی۔ معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ ٹرمپ کا ”بڑا خوبصورت“ بجٹ بل امریکہ کے قومی قرض کو مزید بڑھا دے گا، جس سے امریکی ڈالر میں اعتماد مزید کمزور ہوگا۔
یون کریڈٹ کے تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی ڈالر رواں سال اب تک کا سب سے بڑا نقصان برداشت کرنے والی کرنسی ہے، کیونکہ سرمایہ کاروں کو ٹرمپ کی پالیسیوں پر تحفظات ہیں۔ دوسری طرف یورو نے 5 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔
ٹریڈ نیشن کے سینئر مارکیٹ تجزیہ کار ڈیوڈ موریسن کے مطابق ٹرمپ کے ٹیرف، انتظامیہ کی افراتفری، اور قومی قرض کے حوالے سے بڑھتی ہوئی تشویش نے ڈالر کو غیر مقبول بنا دیا ہے۔
امریکی سود کی شرحوں میں ممکنہ کمی کی توقعات نے بھی ڈالر کو نقصان پہنچایا ہے، کیونکہ ٹرمپ بارہا فیڈرل ریزرو چیئرمین جیروم پاول کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں اور عندیہ دیا ہے کہ ان کی جگہ ایسا چیئرمین لائیں گے جو شرحِ سود میں کمی کی حمایت کرے۔
ایگزا انویسٹمنٹ انسٹیٹیوٹ کے کرس اِیگو کے مطابق، سال 2025 کی پہلی ششماہی میں مالیاتی منڈیوں میں بہتری کی رفتار تیز رہی ہے، اور کسی بھی بڑی فروخت کے بعد جلد بحالی ہوئی۔ سرمایہ کار امریکی شرحِ سود میں کئی بار کمی پر شرط لگا رہے ہیں۔
سال 2025 میں اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی، اگرچہ مجموعی طور پر بیشتر مارکیٹوں نے مثبت نتائج دیے، لیکن اس تک پہنچنے کا سفر خاصا ناہموار تھا۔
آئی این جی ریسرچ کے کارسٹن بریزسکی نے اسے ”ایونٹ فل“ ششماہی قرار دیتے ہوئے کہا کہ “ٹیرف، مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال، فیڈ کی آزادی پر سوالات، امریکی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی، غیر معمولی مالیاتی اقدامات، قرض میں اضافہ، مہاجرین کی بے دخلی، غیر ملکی طلبا کے ویزوں پر پابندیاں، یوکرین جنگ کا چوتھا سال اور جرمنی کی دفاعی بجٹ میں متوقع دوگنا اضافہ جیسے عوامل نے مارکیٹوں پر اثر ڈالا۔
مارچ میں جب ٹرمپ نے چین، میکسیکو اور کینیڈا سے تجارتی معاہدوں پر سخت مؤقف اختیار کیا تو امریکی اور یورپی مارکیٹیں کمزور ہوئیں، اور اپریل کے اوائل میں لبریشن ڈے ٹیرف کے اعلان سے عالمی سطح پر شدید فروخت دیکھنے میں آئی۔ یہ 2020 کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹ کی بدترین ہفتہ وار کارکردگی تھی، جس کے بعد وائٹ ہاؤس نے 90 روزہ وقفے اور ٹاکو (Trump Always Chickens Out) پالیسی کا اعلان کیا۔
اگرچہ اب تک امریکہ صرف برطانیہ کے ساتھ تجارتی معاہدہ کر پایا ہے، تاہم مستقبل میں مزید پیش رفت یا ٹیرف میں وقفے کی امید نے مارکیٹ میں زبردست بحالی پیدا کی، جس کے نتیجے میں ایس ایںڈ پی 500 انڈیکس جون کے اختتام پر نئی بلند ترین سطح پر پہنچا۔
بلوم برگ کے مطابق، یہ گزشتہ 100 سالوں میں صرف تیسری بار ہے کہ ایس اینڈ پی 500 نے ایک ہی سہ ماہی میں پہلے 10 فیصد گرنے کے بعد مثبت واپسی کی ہو۔
سوئس کوٹ بینک کی سینئر تجزیہ کار ایپک اوزکارڈیسکایا کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ مارکیٹ کی بحالی کسی بڑی تجارتی پیش رفت کے باعث نہیں بلکہ ٹاکو اور ایف او ایم او ( نقصان کے خوف) کے باعث ہوئی، اور سرمایہ کاروں کو یقین ہے کہ فیڈ شرح سود جلد کم کرے گا، جبکہ اے آئی کی ترقی پیداواری لاگت کم کرے گی۔
اس کے باوجود امریکی مارکیٹیں کچھ یورپی مارکیٹوں سے پیچھے رہیں۔ ایس اینڈ پی 500 نے 2025 میں اب تک صرف 5 فیصد اضافہ کیا، جبکہ اسٹاکس 600 میں 7 فیصد، برطانیہ کا ایف ٹی ایس ای 100 میں 7.2 فیصد اور جرمنی کا ڈی اے ایکس 20 فیصد بڑھا ہے۔
اے جے بیل کے تجزیہ کار ڈین کوٹس ورتھ نے کہا کہ ٹیرف، کمزور معاشی تخمینے، جغرافیائی کشیدگی، اور غیر یقینی صورتحال نے سرمایہ کاروں کے رویے میں بڑا تغیر پیدا کیا ہے۔ سرمایہ کاروں نے نئی ترجیحات اپنائی ہیں اور امریکی مارکیٹ ان کی اولین ترجیح نہیں رہی۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments