وزیراعظم شہباز شریف نے جمعہ کے روز اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے 17ویں سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ خطے اور دنیا کو درپیش اہم چیلنجز، بالخصوص ماحولیاتی تبدیلی اور جغرافیائی سیاسی عدم استحکام سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون کو مضبوط کریں۔

انہوں نے کہا کہ ای سی او ممالک اس وقت گلیشیئرز کے پگھلنے، زمین بنجر ہونے، شدید موسمی مظاہر اور زرعی پیداوار میں کمی جیسے اثرات سے دوچار ہیں، جو کروڑوں افراد کی خوراک، روزگار اور بقاء کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔

وزیراعظم نے یاد دلایا کہ پاکستان 2022 کے تباہ کن سیلاب سے گزر چکا ہے، جس میں 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے۔ اور گزشتہ ہفتے بھی موسمیاتی اثرات کے باعث متعدد جانوں کا ضیاع ہوا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے متعدد پالیسی اقدامات کیے ہیں اور 4F منصوبے (بحالی، مزاحمت، تعمیر نو اور بہتری) پر عملدرآمد بھرپور انداز میں جاری ہے۔

وزیراعظم نے تجویز دی کہ کم آلودگی کا اخراج والے (صنعتی یا ٹرانسپورٹ) نظام ( لو ایمیشن کوریڈورز) اور علاقائی سطح پر آفات سے نمٹنے کا نظام (ڈیزاسٹر ریزیلئینس نظام) قائم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ماحولیاتی مالی معاونت کے لیے خصوصی فریم ورک تشکیل دیا جائے، جس کے ساتھ صاف توانائی کے علاقائی منصوبے اور ایکو ٹورازم کی ترقی بھی شامل ہو، تو یہ خطے میں پائیدار اور جامع ترقی کے مواقع پیدا کر سکتا ہے، خاص طور پر نوجوانوں اور خواتین کے لیے سبز یا ماحول دوست روزگار (گرین جاب) کی راہیں ہموار ہوں گی۔

معاشی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے زور دیا کہ اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) وژن 2025 کے تحت طویل عرصے سے التوا کا شکار معاہدوں، خصوصاً ای سی او تجارتی معاہدہ (ای سی او ٹی اے) اور رکن ممالک کو ملانے والی ٹرانسپورٹ راہداریوں کو فعال بنایا جائے۔

انہوں نے ای سی او کی ابتدا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تنظیم دراصل 1960 کی دہائی میں پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان قائم علاقائی تعاون برائے ترقی (آر سی ڈی) کی تاریخی بنیاد پر قائم ہوئی، جو آج کے علاقائی انضمام کے لیے ایک موثر نمونہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ سے ہی علاقائی روابط، توانائی کے تحفظ اور معاشی ترقی کے مشترکہ اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

وزیراعظم نے لاہور کو 2027 کے لیے ای سی او سیاحت کا دارالحکومت نامزد کرنے پر رکن ممالک کا شکریہ ادا کیا اور تمام مندوبین کو پاکستان کے تہذیبی ورثے سے لطف اندوز ہونے کی دعوت دی۔

انہوں نے کہا کہ لاہور، جو پاکستان کا ثقافتی مرکز ہے، آپ سب کا دل موہ لے گا۔ ہم تمام رکن ممالک کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی ظلم وتشدد کی شدید مذمت

وزیراعظم نے کہا کہ بھارتی غنڈہ گردانہ اور بلاوجہ جارحیت، جو کہ غیر قانونی پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ایک افسوسناک واقعے کے بعد پاکستان پر کی گئی، علاقائی امن کو خراب کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ دنیا نے ہمارے بہادر مسلح افواج کے پختہ عزم کو دیکھا، جس کی قیادت فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کر رہے ہیں۔

انہوں نے سال کے آغاز میں بھارتی جارحیت کے بعد پاکستان کے ساتھ بھائی چارے کے جذبے کے تحت اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے رکن ممالک کی حمایت اور یکجہتی کو بھی سراہا۔

وزیراعظم نے اسرائیل کی غزہ میں انسانیت سوز کارروائیوں کی سخت مذمت کی اور کہا کہ پاکستان ہر اس ظالمانہ عمل کے خلاف پختہ موقف رکھتا ہے جو بے گناہ انسانوں کے خلاف کہیں بھی، چاہے غزہ میں ہو، بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں یا ایران میں، کیا جاتا ہے۔

بھارت کی آبی جارحیت

وزیراعظم نے بھارت کی جانب سے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی طرف توجہ دلائی، اور نئی دہلی کی مبینہ طور پر انڈس واٹرز ٹریٹی کی خلاف ورزیوں اور مستقل ثالثی عدالت کے حالیہ فیصلے کا حوالہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ سرکشی بالکل ناقابل قبول ہے۔ دریائے سندھ کا پانی پاکستان کے 24 کروڑ عوام کی زندگی کی رگ ہے۔ بھارت کی یہ کارروائیاں دراصل جارحیت کے مترادف ہیں۔

وزیراعظم نے واضح کیا کہ کسی بھی صورت میں بھارت کو یہ خطرناک راستہ اپنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ پاکستان کے عوام کے خلاف ایک جارحانہ فعل ہو گا۔

وزیراعظم نے ایران پر اسرائیلی حملوں کو بلاجواز قرار دیا

وزیراعظم نے اسرائیل کے ایران پر حالیہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے غیر قانونی، بلاجواز اور ناجائز قرار دیا اور ایرانی عوام سے گہری ہمدردی کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اسرائیلی جارحیت کے اس عمل کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔ ہم اپنے زخمی بھائیوں اور بہنوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔

Comments

200 حروف