اسرائیلی حملے کے بعد جغرافیائی کشیدگی میں اضافہ، پاکستان اسٹاک مارکیٹ دباؤ کا شکار
- کے ایس ای-100 انڈیکس میں 1,950 پوائنٹس، یا 1.57 فیصد کی کمی
پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں جمعہ کے روز شدید فروخت کا دباؤ دیکھا گیا جبکہ خطے میں اسرائیل کی جانب سے ایران پر فوجی حملے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدہ جغرافیائی صورتِ حال کے باعث کے ایس ای-100 انڈیکس کاروباری سیشن کے اختتام پر تقریباً 2,000 پوائنٹس کی کمی کے ساتھ بند ہوا۔
کاروباری سیشن کے دوران پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں فروخت کا دباؤ مسلسل برقرار رہا جس کے نتیجے میں کے ایس ای-100 انڈیکس انٹرا ڈے کے دوران کم ترین سطح 121,604.60 پوائنٹس تک جا پہنچا۔
کاروبار کے اختتام پر بینچ مارک انڈیکس 1,949.56 پوائنٹس یا 1.57 فیصد کی کمی کے ساتھ 122,143.57 پر بند ہوا۔
عارف حبیب لمیٹڈ کے ڈپٹی ہیڈ آف ٹریڈنگ علی نجیب نے کہا کہ گزشتہ شب اسرائیل کی جانب سے ایران میں مختلف فوجی اور جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد جغرافیائی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے جس پر مارکیٹ نے فوری ردعمل دیا۔ انڈیکس منفی زون میں کھلا اور تیزی سے خسارے میں چلا گیا۔
علی نجیب کے مطابق فروخت کے دباؤ کا سب سے زیادہ اثر فرٹیلائزر، سیمنٹ، بینکنگ اور ٹیکنالوجی کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے بھاری سرمایہ والی بلیو چِپ کمپنیوں پر پڑا۔ اینگرو کارپوریشن، لکی سیمنٹ، فوجی فرٹیلائزر، بینک الحبیب اور سسٹمز لمیٹڈ نے مجموعی طور پر 505 پوائنٹس کی کمی میں کردار ادا کیا۔
یاد رہے کہ جمعرات کو پی ایس ایکس میں حالیہ تیزی کے بعد معمولی اصلاح دیکھی گئی جو کہ وفاقی بجٹ سے متعلق سرمایہ کاروں کے پرجوش رویے کے نتیجے میں آئی تھی۔ جمعرات کو کے ایس ای 100 انڈیکس 259.56 پوائنٹس یا 0.21 فیصد کی کمی سے 124,093.12 پوائنٹس پر بند ہوا۔
بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس نے ہفتہ وار بنیاد پر 0.4 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا۔
ٹوپ لائن سیکیورٹیز کے مطابق کے ایس ای 100 انڈیکس نے ہفتے کا آغاز مثبت زون میں کیا جہاں بجٹ نے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ کیا کیونکہ حکومت نے کیپیٹل گین ٹیکس (سی جی ٹی) اور ڈیویڈنڈ پر شرح کو برقرار رکھا اور بجٹ کا مجموعی پیغام مالیاتی استحکام کا تھا۔
تاہم ہفتے کے اختتام تک مارکیٹ دباؤ کا شکار ہوئی کیونکہ امریکہ کی جانب سے اپنے تجارتی شراکت داروں پر اسٹیل پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنے کی خبر آئی اور ساتھ ہی اسرائیل کے ایران پر حملے میں اعلیٰ فوجی افسران کے مارے جانے کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔
عالمی سطح پر بھی جمعہ کو ایشیائی مارکیٹوں میں شدید مندی دیکھی گئی جب کہ امریکی فیوچرز میں فروخت کا دباؤ نمایاں رہا اور اسرائیل کی ایران پر فوجی کارروائی کے بعد تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس دوران سرمایہ کاروں نے سونے اور سوئس فرانک جیسے محفوظ اثاثوں کا رخ کرلیا۔
اسرائیلی حملے کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے مزید بڑھنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے جو کہ عالمی معیشت اور مالیاتی منڈیوں کے لیے پہلے سے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں کے سبب دباؤ کا شکار ہیں۔
مارکیٹ کا ردعمل فوری تھا۔ امریکی ایس اینڈ پی ای-منی فیوچرز میں 1.5 فیصد اور نیسڈیک فیوچرز میں 1.7 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ جاپان کا نِکی انڈیکس 1.4 فیصد اور جنوبی کوریا کا کوسپی انڈیکس 1.2 فیصد نیچے آیا۔
برینٹ کروڈ آئل کی قیمت میں 6 فیصد سے زائد اضافہ ہوا اور یہ 73.56 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچی جب کہ سونا ایک فیصد اضافے کے ساتھ 3,419 ڈالر فی اونس پر ٹریڈ ہوا۔
اسرائیل نے ایران کے ممکنہ میزائل اور ڈرون حملے کے پیش نظر ایمرجنسی کا اعلان کردیا ہے جسے اس نے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف پیشگی حملہ قرار دیا ہے۔
ایران کے دارالحکومت تہران کے شمال مشرق میں جمعہ کی صبح دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں جیسا کہ ریاستی نیوز ایجنسی نور نیوز نے رپورٹ کیا۔
دو امریکی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیل نے ایران پر حملے کا آغاز کردیا ہے تاہم اس آپریشن میں امریکہ کی کوئی مدد یا شمولیت نہیں ہے۔
دریں اثناء جمعہ کے روز ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 0.1 فیصد تنزلی ریکارڈ کی گئی۔ کاروبار کے اختتام پرڈالر کے مقابلے روپیہ 29 پیسے قدر کھو کر 282.96 روپے پر بند ہوا۔
آل شیئر انڈیکس پر کاروباری حجم کم ہو کر 968.35 ملین حصص رہا، جو گزشتہ سیشن میں 1,024.63 ملین تھا۔
شیئرز کی مالیت بھی کم ہو کر 29.56 ارب روپے رہی، جو گزشتہ سیشن میں 50.54 ارب روپے تھی۔
پرویز احمد کمپنی 116.65 ملین حصص کے ساتھ حجم کے اعتبار سے سرِفہرست رہی، اس کے بعد ورلڈ کال ٹیلی کام 100.89 ملین حصص، اور فرسٹ کیپیٹل سیکیورٹیز 85.32 ملین حصص کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہیں۔
جمعہ کے روز 469 کمپنیوں کے شیئرز کا کاروبار ہوا، جن میں سے 130 کے شیئرز کی قیمت میں اضافہ، 304 کے شیئرز کی قیمت میں کمی، جبکہ 35 کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
Comments