حکومت نے منگل کو خبردار کیا کہ امریکی اقدامات کے باعث پاکستان کی تجارت متاثر ہونے کا خدشہ ہے جس سے بڑے معاشی دباؤ کے دوران مستحکم تجارتی تعلقات قائم رکھنا مشکل ہوسکتا ہے۔

اقتصادی سروے 2024-25 کے مطابق پاکستان کی کل برآمدات میں سے امریکہ کو برآمدات کا حصہ صرف 17 فیصد ہے۔ سال 2024 میں امریکہ سے پاکستان کو برآمدات 2.14 ارب ڈالر رہیں جب کہ امریکہ کو پاکستان سے درآمدات 5.47 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ پاکستان یورپی یونین، چین، مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید کے دیگر ممالک کا بھی ایک اہم تجارتی شراکت دار ہے۔

لہٰذا امکان ہے کہ امریکی اقدامات کے باعث پاکستان کی تجارت منفی طور پر متاثر ہوسکتی ہے اور بڑے معاشی دباؤ کے دوران مستحکم تجارتی تعلقات برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا، تاہم پاکستان کے کم تر جوابی ٹیرف امریکی مصنوعات کے لیے پاکستانی منڈی کو زیادہ قابلِ رسائی بناتے ہیں اور ترجیحی تجارتی سلوک کے حق میں پاکستان کا مؤقف مضبوط کرتے ہیں۔

اگرچہ پاکستان امریکی مصنوعات کی درآمد پر اوسطاً کم تجارتی ٹیرف (7.3 فیصد) عائد کرتا ہے جبکہ امریکہ پاکستانی برآمدات پر 9.9 فیصد ٹیرف وصول کرتا ہے تاہم امریکہ کے اختیار کردہ فارمولے کے تحت پاکستان کی برآمدات پر اضافی 30 فیصد ٹیرف بھی نافذ کردیا گیا ہے۔

جبکہ کمبوڈیا (49 فیصد)، ویتنام (46 فیصد)، چین (145 فیصد سے زائد) اور بنگلہ دیش (37 فیصد) کو امریکی منڈی میں برآمدات پر بلند جوابی ٹیرف کا سامنا ہے، پاکستان کی 30 فیصد شرح نسبتاً کم ہے اور بھارت کی 27 فیصد شرح کے قریب ہے۔ تجارت کے وزن کے اعتبار سے پاکستان کی اوپن مارکیٹ کا یہ تاثر نہ صرف اسے ایک دوستانہ اور تعاون پر مبنی تجارتی شراکت دار کے طور پر پیش کرتا ہے بلکہ امریکی منڈی تک ترجیحی رسائی کے لیے پاکستان کا مؤقف مزید مضبوط بناتا ہے۔

پاکستان امریکی کپاس کا ایک بڑا درآمد کنندہ ہے، جو اس کے سب سے بڑے برآمدی شعبے — ٹیکسٹائل اور ملبوسات — کے لیے ایک اہم خام مال ہے۔ مالی سال 2024 میں پاکستان نے امریکہ سے 70 کروڑ ڈالر سے زائد مالیت کی خام کپاس درآمد کی، جو امریکی درآمدات میں سب سے بڑا آئٹم رہا۔ توقع ہے کہ رواں سال اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ امریکہ سے اعلیٰ معیار کی کپاس حاصل کرکے اور ویلیو ایڈڈ تیار شدہ مصنوعات برآمد کرکے پاکستان نے ایک باہمی فائدہ مند تجارتی سلسلہ قائم کیا ہے۔ یہ ماڈل نہ صرف صنعتی مسابقت کو فروغ دیتا ہے بلکہ امریکی منڈی تک طویل المدتی رسائی کو بھی مستحکم کرتا ہے۔

حکومت نجی شعبے کے ساتھ مشاورت کر رہی ہے تاکہ ایسی پالیسیاں تشکیل دی جا سکیں جو امریکہ سے کپاس کی درآمدات میں اضافہ کریں اور پاکستان کے کردار کو ایک قابلِ اعتماد ٹیکسٹائل سپلائر کے طور پر مزید مستحکم بنائیں، تاکہ دو طرفہ تجارت کو مزید فروغ دیا جا سکے۔ حال ہی میں پاکستان نے امریکہ سے سویابین اور بیف مصنوعات کی درآمد کے حوالے سے درپیش مسائل بھی حل کر لیے ہیں، جس سے دنیا کی سب سے بڑی منڈیوں میں سے ایک کے ساتھ پاکستان کی تجارت مزید وسعت اختیار کرے گی۔

پاکستان کے پاس یہ موقع موجود ہے کہ وہ امریکی منڈی میں کئی ایسی مصنوعات کے لیے اپنا حصہ بڑھا سکے جن پر چین، کمبوڈیا اور ویتنام جیسے بڑے مقابل ممالک پر بلند درآمدی محصولات عائد کر دیے گئے ہیں، جبکہ پاکستان کو نسبتاً معتدل محصولات کا سامنا ہے — جو اگرچہ مصر اور ترکیہ سے زیادہ ہیں مگر بیشتر دیگر ممالک سے کم ہیں۔ سب سے بہتر مواقع ان مصنوعات میں موجود ہیں جنہیں امریکہ بڑی مقدار میں ان بلند محصولات والے ممالک سے درآمد کرتا ہے اور جہاں پاکستان پہلے ہی کسی حد تک برآمدی موجودگی رکھتا ہے۔

اہم شعبوں میں ٹیکسٹائل اور ملبوسات شامل ہیں، جہاں پاکستان اپنے مضبوط ٹیکسٹائل بیس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کاٹن ٹراوزر، نِٹ شرٹس اور ڈینم کی برآمدات میں اضافہ کرسکتا ہے۔ ملبوسات سے آگے، ہوم ٹیکسٹائل — جیسے بیڈ شیٹس، تولیے اور پردے — میں بھی خاصی استعداد موجود ہے، کیونکہ پاکستان پہلے ہی ان مصنوعات کا ایک بڑا برآمد کنندہ ہے جبکہ چین اور ویتنام جیسے حریف ممالک کو ان اشیاء پر زیادہ بلند محصولات کا سامنا ہے۔

اسی طرح چمڑے کے دستانے، کھیلوں کا سامان اور جوتے بھی مواقع فراہم کرتے ہیں کیونکہ ان مصنوعات پر چینی اور ویتنامی اشیاء کے مقابلے میں زیادہ محصولات عائد ہیں۔ اگر پاکستان معیار، برانڈنگ اور عالمی معیارات کی پاسداری میں ہدفی بہتری لائے تو ان شعبوں میں خود کو ایک قابلِ اعتماد متبادل سپلائر کے طور پر مؤثر انداز میں پیش کرسکتا ہے۔

اقتصادی سروے میں مزید کہا گیا ہے کہ ماضی میں پاکستان کی برآمدی کارکردگی متاثر کن نہیں رہی۔ تاہم مالی سال 2025 کے دوران جولائی تا اپریل کے عرصے میں برآمدات میں بحالی کے آثار دیکھنے میں آئے، جس کی وجہ عالمی طلب میں بہتری، مسابقتی ایکسچینج ریٹ میں استحکام اور ہدفی پالیسی سپورٹ رہی۔ پاکستان بیورو آف شماریات کے مطابق، اس عرصے میں مجموعی برآمدات 6.4 فیصد بڑھ کر 26.9 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جو گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران 25.3 ارب ڈالر تھیں۔

ٹیکسٹائل شعبہ بدستور غالب رہا اور مجموعی برآمدات میں 55 فیصد حصہ ڈالا۔ اس شعبے میں نٹ ویئر، بیڈ ویئر اور ریڈی میڈ گارمنٹس کی برآمدات میں اضافے نے حجم اور بہتر قیمتوں کے ذریعے نمو کو تقویت دی۔ غیر روایتی برآمدات جیسے کہ آئی ٹی سروسز، دواسازی اور انجینئرنگ مصنوعات میں بھی حوصلہ افزا اضافہ دیکھنے میں آیا۔

حکومتی اقدامات، جن میں ڈیوٹی ڈرا بیک اسکیمیں، توانائی پر سبسڈی اور منڈیوں تک بہتر رسائی شامل ہے، اس مثبت رجحان میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔

حکومت برآمدات میں استحکام کے فروغ کے لیے مارکیٹ تک رسائی کو وسعت دینے اور سپلائی سے جڑے رکاوٹوں کے حل کے لیے ہدفی اقدامات کر رہی ہے، تاکہ ترسیلاتِ زر اور قرضے پر انحصار کم کیا جا سکے۔

پاکستان کی درآمدی کارکردگی نے رواں مالی سال جولائی تا اپریل معاشی بحالی، زرِ مبادلہ کی شرح میں استحکام اور صنعتی توسیع کے امتزاج کو ظاہر کیا۔ اس دوران مجموعی درآمدات 7.6 فیصد بڑھ کر 48.3 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ سال اسی مدت میں 44.9 ارب ڈالر تھیں۔

کئی برس کی پالیسی کے تحت درآمدات میں کمی کے بعد، حالیہ اضافہ ملک میں سرمایہ جاتی اشیاء اور صنعتی خام مال کی بڑھتی ہوئی طلب کو ظاہر کرتا ہے۔ حکومت اور اسٹیٹ بینک کی کرنسی استحکام سے متعلق پالیسیوں نے بھی بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں پیش گوئی کے عمل کو بہتر بنایا ہے۔

درآمدات کے بڑھتے رجحان نے پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ درآمدات کے مجموعی ڈھانچے میں سرمایہ کاری پر مبنی ترقی کی جانب واضح جھکاؤ نظر آیا جس میں مشینری، صنعتی خام مال اور زرعی اشیاء کی درآمدات کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ یہ رجحان تجارت کے پائیدار استحکام اور معیشت کی مضبوطی کی بنیاد رکھ رہا ہے۔طویل المدتی ترقی کے اہداف کے مطابق بڑھتی ہوئی درآمدی طلب کو مؤثر طور پر سنبھالنا، مستقل ریگولیٹری استحکام اور سرمایہ کاری پر مبنی اصلاحات کے تسلسل پر منحصر ہوگا۔

جولائی تا اپریل مشینری کی درآمدات میں 14.4 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 7.7 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ سال اسی مدت کے 6.8 ارب ڈالر کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔ یہ رجحان پاکستان کی صنعتی بحالی اور جدید کاری کی کوششوں کو مضبوط بناتا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ بجلی پیدا کرنے والی مشینری کی درآمدات میں 65.4 فیصد، تعمیراتی اور کان کنی کی مشینری میں 57.2 فیصد اور ٹیکسٹائل مشینری میں 61.7 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ رجحان توانائی، بنیادی ڈھانچے اور برآمدی صنعتوں میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کی واضح عکاسی کرتا ہے۔

زرعی مشینری کی درآمدات میں 33.8 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو زراعت میں بڑھتی ہوئی میکانائزیشن کو ظاہر کرتا ہے۔ برقی مشینری، جو اس گروپ میں 38.4 فیصد حصہ رکھتی ہے، کی درآمدات میں 14.6 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 3.0 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔اس کے برعکس، ٹیلی کام مصنوعات کی درآمدات میں 5.8 فیصد کمی آئی اور یہ 1.7 ارب ڈالر رہ گئیں، جس کی بنیادی وجہ موبائل فونز کی درآمدات میں 14.2 فیصد کمی ہے، کیونکہ مقامی سطح پر تیاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ سرمائے پر مبنی اس نمو سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی معیشت پیداواری سرمایہ کاری کی جانب بڑھ رہی ہے، جو برآمدی مسابقت اور طویل المدتی معاشی استحکام کو فروغ دے گی۔

جولائی تا اپریل مالی سال 2025 کے دوران 27.5 فیصد کے ساتھ پٹرولیم گروپ سب سے بڑی درآمدی کیٹیگری رہا۔ تاہم، مستحکم تیل کی قیمتوں اور کرنسی میں استحکام کے باعث اس کی درآمدات میں 3.4 فیصد کمی آئی اور یہ 13.3 ارب ڈالر رہ گئیں، جو گزشتہ سال کے 13.8 ارب ڈالر کے مقابلے میں کم ہیں۔

خام تیل کی درآمدی مالیت 4.5 ارب ڈالر رہی جو گزشتہ سال کے 4.6 ارب ڈالر کے قریب ہے، تاہم درآمدی مقدار میں 14.9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو مؤثر خریداری کی عکاسی کرتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات 6.3 فیصد کمی کے ساتھ 5.0 ارب ڈالر تک محدود رہیں (گزشتہ سال 5.3 ارب ڈالر)، جو طلب کے بہتر انتظام کا مظہر ہے۔

ایل این جی کی درآمدات 10.3 فیصد کمی کے ساتھ 2.9 ارب ڈالر رہیں (گزشتہ سال 3.3 ارب ڈالر)، جبکہ ایل پی جی کی درآمدات 34.7 فیصد اضافہ کے ساتھ 885.2 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں، اگرچہ یہ اضافہ کم بنیاد سے ہوا ہے۔ یہ تبدیلیاں ملکی توانائی کی بدلتی ضروریات کے درمیان حکمت عملی کے اہم توانائی ذرائع کی نشاندہی کرتی ہیں۔ بیرونی انحصار کم کرنے کے لیے مقامی ریفائننگ صلاحیت کو مضبوط بنانا اور توانائی کے متنوع ذرائع اپنانا ناگزیر ہے۔

مالی سال 2025 کے جولائی سے اپریل کے دوران ٹیکسٹائل کی درآمدات میں 63.5 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 2.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 3.5 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو ملکی کپاس کی کمی اور برآمدات کی طلب کی عکاسی کرتا ہے۔ خام کپاس کی درآمدات میں قیمت کے اعتبار سے 236.6 فیصد اور مقدار میں 300.4 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو ملکی کپاس کی پیداوار کی کمی کو واضح کرتا ہے۔

مصنوعی فائبر کی درآمدات میں 9.2 فیصد، آرٹیفیشل سلک یارن میں 14.6 فیصد، اور مستعمل کپڑوں کی درآمدات میں 21.2 فیصد اضافہ ہوا، جو اعلیٰ قدر کی پیداوار کے لیے بڑھتی ہوئی مانگ کی نشاندہی کرتا ہے۔ دیگر ٹیکسٹائل مواد کی درآمدات میں 74.9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو 586.5 ملین ڈالر سے بڑھ کر 1.0 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جس کی وجہ عالمی قیمتوں میں تبدیلیاں اور ملکی صنعت کی ضروریات ہیں۔

پاکستان نے عالمی تجارتی انضمام کو مضبوط بنانے میں نمایاں پیش رفت کی ہے، دوطرفہ معاہدات، تجارتی سہولت کاری کی مفاہمت کی یادداشتیں اور علاقائی تجارتی شراکت داریوں کو یقینی بنایا ہے تاکہ برآمدات میں تنوع لایا جاسکے اور مارکیٹ تک رسائی بہتر ہو۔

اہم پیشرفت میں جنوبی کوریا کے ساتھ اقتصادی شراکت داری کے معاہدے (ای پی اے) مذاکرات کا آغاز، صدر آصف علی زرداری کے دورہ کے دوران چین کے ساتھ تجارتی تعاون کو بڑھانے کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط، اور مالی سال 2025 کے چوتھے سہ ماہی میں ملائیشیا کے اعلیٰ سطح وزارتی دورے کی تیاری شامل ہیں۔

پاکستان نے اوساکا ایکسپو 2025 میں شرکت کی تصدیق بھی کی ہے، جو عالمی تجارت کو فروغ دینے کے اس کے عزم کو ظاہر کرتی ہے۔ علاقائی تجارتی رجحانات مخلوط کارکردگی دکھاتے ہیں؛ جہاں یوکرین (259 فیصد) اور ترکمانستان (22 فیصد) کو برآمدات میں تیزی آئی، وہیں بیلاروس ( منفی 68 فیصد)، روس (منفی 20 فیصد) اور ازبکستان (منفی 37 فیصد) کو شپمنٹس میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

درآمدات کے حوالے سے تاجکستان (324 فیصد)، کرغزستان (290 فیصد) اور ترکیہ (92 فیصد) سے نمایاں اضافہ دیکھا گیا، جو مضبوط علاقائی تجارتی بہاؤ کی عکاسی کرتا ہے جب کہ آذربائیجان (منفی 95 فیصد)، روس (منفی87 فیصد) اور یوکرین (منفی81 فیصد) سے درآمدات میں شدید کمی واقع ہوئی۔

اہم دوطرفہ مذاکرات میں، پاکستان کی امریکہ کو برآمدات میں 12 فیصد اضافہ ہوا، جو 1.44 بلین ڈالر تک پہنچ گئی، جبکہ مینگو، کھجور اور بیف کی مارکیٹ تک رسائی کے لیے ٹیفا کے تحت بات چیت جاری ہے۔ جنوبی امریکہ میں برآمدات 13 فیصد بڑھ کر 139 ملین ڈالر ہو گئی ہیں، جہاں پاکستان نے MERCOSUR فریم ورک ایگریمنٹ کی توثیق کی اور ترجیحی تجارتی معاہدے کی جانب کام کر رہا ہے۔

یورپی یونین نے پاکستان کا جی پی ایس پلس اسٹیٹس برقرار رکھا، جس کے تحت پاکستان کو 66 فیصد ای یو ٹیرف لائنز پر صفر شرحِ محصول کی سہولت دی گئی۔ اسی دوران برطانیہ کو برآمدات 3 فیصد بڑھ کر 531.83 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں جن کی قیادت ٹیکسٹائل، چاول اور چمڑے کی مصنوعات نے کی۔ مالی سال 2025 میں پاکستان نے متعدد آزاد تجارتی معاہدے (ایف ٹی ایز) اور ترجیحی تجارتی معاہدے (پی ٹی ایز) کی توثیق کی، جن میں D-8 پی ٹی اے شامل ہے جو جنوری 2025 سے فعال ہو گیا اور پاکستان-آذربائیجان پی ٹی اے اور ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ بھی دستخط کیے گئے۔

آئندہ متوقع معاہدوں میں پاکستان-جی سی سی آزاد تجارتی معاہدہ (ایف ٹی اے)، پاکستان-یو اے ای جامع اقتصادی شراکت داری معاہدہ (سی ای پی اے)، پاکستان-تاجکستان ترجیحی تجارتی معاہدہ (پی ٹی اے)، ازبکستان اور ترکیہ کے ساتھ پی ٹی ایز کے فیز- II توسیعات، اور افغانستان-پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ (اے پی ٹی ٹی اے) کی نظرثانی شامل ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان ڈیجیٹل تجارتی سہولیات کو فروغ دے رہا ہے اور صنعتی املاک میں تعاون اور ڈیجیٹل ٹریڈ ویریفیکیشن کے حوالے سے مفاہمتی یادداشتوں (ایم او یوز) پر دستخط کر رہا ہے، جن میں اے آئی سے چلنے والے آئی پی سسٹمز اور ڈیجیٹل سرٹیفیکیٹ آف اوریجن شامل ہیں تاکہ عمل کو آسان بنایا جا سکے اور تجارتی لاگتوں میں کمی لائی جا سکے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025

Comments

200 حروف