وفاقی وزیر آبی وسائل معین وٹو نے بدھ کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کے اجلاس میں کہا کہ بھارت کی جانب سے 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا پاکستان کی خودمختاری پر حملہ اور کھلی جارحیت ہے، جو پاکستان کی زراعت کو تباہ کرنے کی سازش ہے۔ اجلاس کی صدارت نو منتخب چیئرمین احمد عتیق انور نے کی۔
وزیر آبی وسائل نے کہا کہ بھارت کا یہ قدم پاکستان کے وجود پر حملہ ہے۔ ہم اپنی بقا کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی یا اس کو مؤخر کرنے کی کوئی گنجائش معاہدے میں موجود نہیں، اور اگر بھارت نے کسی قسم کی خلاف ورزی کی تو پاکستان متعلقہ بین الاقوامی فورمز سے رجوع کرے گا۔
سیکرٹری آبی وسائل سید علی مرتضیٰ نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت مسلسل سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور دریاؤں کے بہاؤ میں چھیڑ چھاڑ میں ملوث ہے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ بھارت نیلم جہلم ڈیم پر بھی حملے کر چکا ہے۔ پاکستان نے بھارت کو واضح کر دیا ہے کہ وہ یکطرفہ طور پر معاہدہ معطل نہیں کر سکتا۔
انہوں نے بتایا کہ معاہدے کے تحت تین مشرقی دریاؤں (راوی، ستلج اور بیاس) کا پانی بھارت کے لیے مخصوص ہے، جب کہ تین مغربی دریاؤں (دریائے سندھ، جہلم اور چناب) کا پانی پاکستان کو حاصل ہے۔ تاہم بھارت کو محدود مقامی، زرعی، پن بجلی پیدا کرنے اور ذخیرہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے، مگر وہ بھی مخصوص شرائط کے تحت ہے۔
سیکرٹری آبی وسائل نے مزید کہا کہ پاکستان نے اب اپنے دریاؤں کی مانیٹرنگ سخت کر دی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2 اور 3 مئی کو دریائے چناب میں پانی کی سطح میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا، جو بعد میں اچانک کم ہو گیا۔ بگلیہار ڈیم سے پانی کے بہاؤ میں تبدیلی کی بھی نشاندہی ہوئی ہے جسے باقاعدہ چینل سے اٹھایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم شواہد اکٹھے کر رہے ہیں، اور اگر بھارت اس میں ملوث پایا گیا تو اسے سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ بھارت اگر پانی کی چوری کرتا ہے یا بہاؤ روکنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے ”جنگی اقدام“ تصور کیا جائے گا۔
سیکرٹری آبی وسائل نے بتایا کہ معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں پاکستان کے پاس تین آپشنز ہیں: ثالثی عدالت سے رجوع، سفارتی اقدامات، اور آخر میں عسکری راستہ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو بین الاقوامی سطح پر بے نقاب کیا جائے گا۔
اجلاس میں رکن قومی اسمبلی رائے حسن نواز نے سابق انڈس واٹر کمشنر جماعت علی شاہ کے حوالے سے میڈیا میں گردش کرنے والی خبروں کی حقیقت جاننے کا مطالبہ کیا۔ قائم مقام کمشنر مہر علی شاہ نے بتایا کہ جماعت علی شاہ کے خلاف انکوائری ہوئی تھی، اور انہیں او ایس ڈی بنایا گیا تھا، تاہم بھارت کے کسی منصوبے پر فورم سے رجوع نہ کرنے کے الزامات کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
اجلاس میں اراکین نے زور دیا کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں پر فوری اور مؤثر ردعمل دینا وقت کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے آبی وسائل کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments