بلند ٹیکس شرحیں اور سخت قوانین کاروباری اداروں کی دبئی منتقلی کا سبب بن رہے ہیں، ایف بی آر کا اعتراف
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے بدھ کے روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اس مؤقف سے اتفاق کیا کہ ملک میں بلند ٹیکس شرحیں اور سخت قوانین کئی کاروباری اداروں کو اپنی سرگرمیاں دبئی منتقل کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت منعقدہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ریونیو کے اجلاس میں ایف بی آر کے رکن ان لینڈ ریونیو آپریشنز، حامد عٓتیق سرور نے اس رجحان کو تسلیم کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کاروبار سخت ٹیکس نظام سے تنگ آ کر ملک چھوڑ رہے ہیں۔
اجلاس کے دوران کمیٹی اراکین نے کاروباری اداروں کی بڑھتی ہوئی بیرونِ ملک منتقلی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ٹیکس کا موجودہ سخت نظام سرمایہ کاری کو پاکستان سے نکال رہا ہے۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ نان فائلرز کے لیے جائیداد پر ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے 35 فیصد تک ہے، اور متعدد افراد نے پاکستان میں آمدنی ظاہر کیے بغیر دبئی میں جائیدادیں خرید رکھی ہیں، جو ٹیکس چوری کی واضح علامت ہے۔
کمیٹی نے ایک بہتر اور کاروبار دوست ماحول کی فوری ضرورت پر زور دیا تاکہ سرمایہ پاکستان میں ہی رہے اور مزید کاروباری اداروں کی بیرون ملک منتقلی کو روکا جا سکے۔
ایف بی آر حکام نے بتایا کہ ٹیکس چوری سے متعلق سزاؤں میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے، جو جولائی 2025 سے نافذ العمل ہو سکتا ہے۔ فی الوقت یہ جرمانہ پانچ لاکھ روپے ہے، جسے ناکافی قرار دیا گیا۔ عتیق سرور نے کہا کہ کم جرمانے ٹیکس چوری کے خلاف کوششوں کو کمزور کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایف بی آر روزانہ کی بنیاد پر ملک کے بڑے شہروں لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں چھاپہ مار کارروائیاں کر رہا ہے، جن کے نتیجے میں روزانہ تقریباً 20 کاروباری مراکز سیل کیے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر شوگر انڈسٹری میں کارروائی سے 34.5 فیصد ریونیو میں اضافہ ہوا ہے اور اب 95 فیصد صنعت کو ریئل ٹائم مانیٹرنگ سے منسلک کر دیا گیا ہے۔
ٹیکس چوری کی روک تھام کے لیے ایک قومی میڈیا مہم شروع کرنے اور ٹیکس فراڈ رپورٹ کرنے والے افراد کے لیے انعامی اسکیم پر بھی غور کیا جا رہا ہے، تاہم آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مالی نظم و ضبط کو مدنظر رکھتے ہوئے ان اسکیموں پر عمل درآمد فی الحال ممکن نہیں۔
سینیٹر فیصل واوڈا کی جانب سے ٹیکس دہندگان کو رعایت دینے کی تجویز کے جواب میں ایف بی آر حکام نے واضح کیا کہ ایسی کوئی اسکیم شروع نہیں کی جا سکتی کیونکہ پاکستان آئی ایم ایف کے قرضہ پروگرام کے تحت ہے۔
برآمد کنندگان کو ریفنڈ کی ادائیگی کے حوالے سے بھی کمیٹی میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ پانچ برآمدی شعبوں — ٹیکسٹائل، لیدر، سرجیکل آلات، کھیلوں کا سامان، اور قالین — کے لیے ریفنڈز 72 گھنٹوں میں ادا کیے جا رہے ہیں اور فاسٹر سسٹم کے ذریعے کسی درست کلیم کی ادائیگی میں تاخیر نہیں ہو رہی۔
جولائی تا اپریل مالی سال 25-2024 کے دوران 33,204 ریفنڈ آرڈرز کے تحت 317.41 ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئیں۔
تاہم چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے خوراک کے برآمدی شعبے میں ریفنڈ کی عدم ادائیگی پر تشویش کا اظہار کیا اور ایف بی آر کو ہدایت کی کہ وہ تمام زیر التوا ریفنڈز کی تفصیلات، شعبہ وار تاخیر کی وجوہات اور ٹائم لائنز کے ساتھ جامع رپورٹ پیش کرے۔
ایف بی آر حکام نے یقین دہانی کرائی کہ خوراک کے شعبے میں ریفنڈز جمعہ تک جاری کر دیے جائیں گے اور اب تمام 72 برآمدی شعبے ریفنڈ کے عمل میں شامل کر لیے گئے ہیں۔
اجلاس میں کئی اراکین اور وزیر خزانہ کی عدم موجودگی کے باعث دیگر ایجنڈا آئٹمز کو آئندہ اجلاس تک مؤخر کر دیا گیا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments