بھارت، جو دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے، آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے چھ گنا بڑا ملک ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے دہشتگرد حملے کا الزام اس نے پاکستان پر لگایا۔ اس کے بعد جنگی جنون میں متبلا بھارتی میڈیا اور دائیں بازو کی جماعت بے جی پی کے زیر قیادت بھارتی حکومت میں پاکستان کو پتھروں کے دور میں پہنچانے کی خواہش مند دکھائی دی۔

جنوبی ایشیا کے اس دیو ہیکل ملک نے بالآخر خود سے نسبتا کمزور ہمسائے ملک پر بھر پور قوت سے حملہ کردیا۔

اس نے فرانس سے خریدے گئے 36 رافیل طیاروں میں سے کچھ استعمال کیے — جن کی کل قیمت 9.4 ارب ڈالر بتائی جاتی ہے، اور ایک طیارے کی قیمت تقریباً 260 ملین ڈالر ہے۔

لیکن بائبل کی داستان میں حضرت داؤدؑ کی طرح، پاکستان اپنے محبِ وطن سپاہیوں کی بہادری اور چینی طیاروں و میزائلوں کی مدد سے سرخرو ہوا — ایک ایسی فتح جو اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔

پاکستان کی جانب سے جے-10 سی جنگی طیاروں کی تعیناتی اور ان چینی طیاروں، ان کے پی ایل-15 میزائلوں کا پہلا عملی جنگی استعمال ہوا جس نے فوجی ماہرین کو چین کی دفاعی صلاحیتوں کا جائزہ لینے کا ایک نایاب موقع فراہم کیا۔ بہت سے لوگ اس سے متاثر نظر آتے ہیں۔

ماضی قریب تک، چینی مصنوعات کو اعلیٰ معیار کا حامل نہیں سمجھا جاتا تھا — انہیں سستی ضرور لیکن غیر معیاری تصور کیا جاتا تھا۔ آٹوموبائل کے شعبے میں اب بھی جاپانی گاڑیوں کو پاکستان میں بہتر سمجھا جاتا ہے۔

تاہم پاکستان میں کام کرنے والے چینی صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ اب حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ دفاعی شعبے میں حالیہ کامیابیوں کے بعد، چینی مصنوعات کے بارے میں رائے مزید بہتر ہونے کی توقع ہے۔

ایک الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی کے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ چینی گاڑیاں دنیا بھر میں توجہ حاصل کر رہی ہیں لیکن پاکستان میں انہیں قبول کرنے کی رفتار سست ہے۔ تاہم چینی طیاروں اور میزائلوں کی کامیابی یقیناً چینی مصنوعات، خاص طور پر جدید ٹیکنالوجی والی اشیاء جیسے الیکٹرک گاڑیوں، کی ساکھ بہتر کرے گی۔

ایک اور عہدیدار نے کہا کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ حالیہ چینی فضائی دفاعی ٹیکنالوجی نے براہِ راست چینی ہائی ٹیک مصنوعات کی برانڈ امیج پر اثر ڈالا ہے لیکن یہ توقع ضرور کی جا سکتی ہے کہ اب پاکستانی عوام چینی ٹیکنالوجی کی طرف زیادہ دلچسپی دکھائیں گے۔

عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط اس لیے رکھی تاکہ ان کی ذیلی کمپنیاں بھارتی مارکیٹ میں کسی ردِ عمل کا شکار نہ ہوں۔

سال 2022 میں، جب جنوبی کوریا کی ہنڈائی موٹر کی پاکستان میں شراکت دار کمپنی کے ایک نجی ڈیلر کے اکاؤنٹ سے کشمیر کے عوام سے اظہارِ یکجہتی کا ایک ٹویٹ کیا گیا تو بھارت میں ہنڈائی کے خلاف بائیکاٹ کی مہم چل پڑی تھی۔

دوسری جانب ٹیک ایونٹ ”Slush’D“ کے موقع پر — جس کا انعقاد کیٹالسٹ لیبز نے کیا — ”بی وائی ڈی“ کے نائب صدر برائے اسٹریٹجی اور سیلز، دانش خالق نے اس حوالے سے پوچھے گئے سوال کا براہِ راست جواب دینے سے گریز کیا۔

انہوں نے کہا کہ چینی ٹیکنالوجی نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیت کو ثابت کیا ہے۔ دانش خالق نے اس سے پہلے ”ای وی-اولوشن: پاکستان میں چارجنگ کی رفتار“ کے سیشن میں پینلسٹ کے طور پر بات کی تھی۔

گزشتہ برس، بی وائی ڈی نے ایلون مسک کی زیر ملکیت امریکی کمپنی ٹیسلا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا میں سب سے زیادہ الیکٹرک گاڑیاں تیار کیں۔

چین کی کئی کمپنیاں گاڑیوں (چار پہیوں) کے شعبے اور درجنوں کمپنیاں دو اور تین پہیوں کے شعبے میں پاکستان میں چینی ای وی (الیکٹرک گاڑیوں) کے استعمال سے متعلق اندازے لگارہی ہیں۔

دانش خالق نے کچھ تفصیلات شیئر کرتے ہوئے کہا کہ بی وائی ڈی آئندہ سال (2026) تک 25,000 گاڑیاں تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں ای وی کے امکانات سے متعلق پُر امید ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم یہاں موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بی وائی ڈی اس بات کی خواہش رکھتی ہے ہے اور پاکستان میں ای وی انقلاب کی قیادت کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

بی وائی ڈی کا پاکستان کے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں داخلہ ای وی (الیکٹرک گاڑیوں) کے لیے ایک بڑا سنگ میل ہے۔ تاہم پاکستان کی گاڑیوں کی مارکیٹ ہمیشہ پیچیدہ رہی ہے۔ عام گھرانے کے لیے گاڑی خریدنا دوسری بڑی سرمایہ کاری کے مترادف ہے۔ پہلا فیصلہ گھر خریدنا ہوتا ہے۔ خریدار بہت محتاط ہوتے ہیں۔ دوبارہ فروخت کی قیمت فنکشنز اور ٹیکنالوجی سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ وہ آزمودہ اور تجربہ شدہ مصنوعات کو ترجیح دیتے ہیں اور ٹیکنالوجی کو اپنانے کا رحجان کبھی بھی تیز نہیں ہوپایا۔

شاید اس کی بنیادی وجہ آمدن کا کم ہونا ہے۔

چین پہلے ہی پاکستان کا سب سے بڑا ہتھیاروں کا سپلائر ہے — جو پاکستان کی کل فوجی درآمدات کا 81 فیصد بنتا ہے — یہ ڈیٹا اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) سے حاصل کیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ صورتحال آنے والے کچھ سالوں میں نقل و حمل کے شعبے میں بھی نہیں دیکھنے کو ملے گی۔

چینی ای وی (الیکٹرک گاڑیوں)، جن میں مکمل طور پر ناکڈاؤن (سی کے ڈی) اور مکمل طور پر بلٹ اپ (سی بی یو) یونٹس شامل ہیں کے بارے میں یہ تشویش کہ یہ پاکستان کی درآمدی لاگتوں میں اضافہ کریں گے۔ تاہم دانش خالق نے جواب دیا کہ ای وی پاکستان کے ایندھن کی درآمدی بل کو نمایاں طور پر کم کر دیں گی جو کہ ملک کی کل درآمدات کا تقریباً چوتھائی حصہ بنتا ہے۔ اس سے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم ہوگا۔

بی وائی ڈی کے پاکستان میں داخل ہونے اور دیگر کئی عوامل جیسے اقتصادی فوائد اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے پر مثبت اثرات کے ساتھ ٹرانسپورٹ کے شعبے کی برقی کاری پاکستان میں ایک زبردست تبدیلی کے قریب ہو سکتی ہے۔

Comments

200 حروف