یہ بات قابلِ غور ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ جیسے ٹوئٹر اور لائیو وڈیوز بھی ایسی دھند یا رکاؤٹیں ختم کرنے میں ناکام ہیں جو اہم ترین معلومات ان لوگوں تک پہنچانے سے روکتی ہیں اہم ترین معلومات خاص طور پر جنگ کے آغاز میں ان لوگوں تک پہنچنے سے روکتی ہے جو جنگ سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔

جس طرح انسان نے خلائی سفر اور مصنوعی ذہانت میں ترقی تو کی مگر پھر بھی پرچم، نظریات اور جھوٹے بیانیوں پر لڑنے کی پرانی خواہش ختم نہ کر سکا، اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو سچ سے زیادہ جھوٹ اور گمراہ کن معلومات سے بھر دیا ہے۔ اب پروپیگنڈے کو سچ کی شکل دینا پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو گیا ہے۔

اسی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری نئی جنگ کے بارے میں اگرچہ کچھ تجزیے واضح ہیں، پھر بھی اُنہیں احتیاط کے ساتھ، ”اگر“ اور ”مگر“ کے ساتھ ہی سمجھنا چاہیے۔

تو اگر یہ سچ ہے کہ پہلے حملے میں بھارت کو غیر متناسب نقصان اٹھانا پڑا، تو یقین رکھیں کہ یہ پہلا اور آخری حملہ نہیں تھا، اور جنگ کے فوری خاتمے کی باتیں بھی گمراہ کن ہیں۔ یہ خیال کہ دونوں فریق پچھلی بار کی طرح فتح کا دعویٰ کر کے معاملے کو سمیٹ لیں گے، اب زیادہ قابلِ مؤثر نظر نہیں آتا کیونکہ مودی نے شاشوت راشٹر (ہمیشہ رہنے والے بھارت) سے صرف دو مسجدیں گرانے اور چند درجن عام شہری مارنے سے کہیں زیادہ کا وعدہ کیا تھا جب انہوں نے بہار میں مکا لہرا کر خطاب کیا۔

انہوں نے بلند آواز میں اعلان کیا کہ ہم ہر دہشت گرد اور اس کے سرپرستوں کو سزا دیں گے اور ہم زمین کے آخری کونے تک بھی پیچھا کرکے انہیں ماریں گے۔ پھر بھارتی میڈیا جو عام حالات میں بھی سنسنی سے بھرپور ہوتا ہے، خون مانگنے لگا۔ چنانچہ بھارتی تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا کہ ”نپی تلی کارروائی“ کامیاب رہی کیونکہ اس سے پیغام درست انداز میں پہنچا ہے، شاید عالمی سطح پر قبول ہو جائے لیکن اندرونِ ملک اس سے آگ اور بھڑک سکتی ہے۔

اگر واقعی ”آپریشن سندور“ میں بھارت کے 5 سے 6 لڑاکا طیارے، ڈرونز اور ایک بریگیڈ ہیڈ کوارٹر تباہ ہو چکے ہیں، تو پھر یہ بات درست لگتی ہے کہ بھارتی حکومت نے حد سے زیادہ قدم اٹھایا۔ اس نے یہ سب کچھ بین الاقوامی برادری کی ناراضی کے باوجود اس لیے کیا کیونکہ اندرونی سیاسی دباؤ اور اپنی حکومت بچانے کے لیے اُسے اپنے الفاظ کے مطابق طاقت دکھانا ضروری ہو گیا تھا۔

اور یہی وجہ ہے کہ حالات غالباً مزید خراب ہوں گے۔ مودی حکومت اب اپنے ہی بیانیے کی قیدی بن چکی ہے، جس کی وجہ سے جنگ کا دائرہ وسیع ہونا تقریباً یقینی ہے، اس کی مثال خود یہ آپریشن ہے۔

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پہلے اکثریت اور پھر اتحاد کے ذریعے وجود میں آنے والی مودی سرکار، جس نے بھارت کو عالمی مالیاتی اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں بلند مقام تک پہنچایا، دراصل ایک ایسی انتہاپسند مذہبی و سیاسی سوچ پر کھڑی ہے جو نفرت اور خونریزی سے طاقت حاصل کرتی ہے۔ اب مودی اور ان کی ہندوتوا بریگیڈ نے اس حد تک جذبات کو بھڑکا دیا ہے کہ اس جنون کو قابو میں رکھنے کے لیے مزید جنگ کی آگ بھڑکانا پڑ رہی ہے۔

اور یہ بات تو بالکل بھی غیر فائدہ مند ہے — کم از کم پاکستانی موقف کے مطابق — کہ آپریشن سندور اپنی پہلی کارروائی میں ناکام ہو کر شرمندگی کے ساتھ لوٹا ہے۔

اصل دھند میدانِ جنگ میں نہیں، بلکہ اُن لوگوں کے ذہنوں میں ہے جنہیں روز آدھا سچ اور حب الوطنی کے فریب سنائے جاتے ہیں۔ اب سب سے بڑا خطرہ یہ نہیں کہ حملہ آور کوئی غلط اندازہ لگا سکتا ہے — وہ تو ہو چکا — بلکہ یہ ہے کہ دونوں فریق اپنے اپنے بنائے ہوئے بیانیوں میں پھنس چکے ہیں اور ان سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ ایسا کرنے پر وہ کمزور نظر آئیں گے۔

جو کچھ یہاں سچی معلومات سمجھی جاتی ہیں، اُس کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ مودی نے ایک بڑی جوا کھیلا اور اپنی کوشش میں ناکام ہو گئے کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان موجودہ صورتحال کو بڑی حد تک بدل دیں۔ اگر انہوں نے فوراً اس کی تلافی نہ کی تو ایک وقت میں سیکولر بھارت پر قابض انتہاپسند ہندوتوا کا اثر خود ہی ٹوٹنا شروع ہو جائے گا۔

اس لیے وہ زیادہ کوشش کرنے پر مجبور ہوں گے اور یہ عام لوگوں کے لیے بری خبر ہے جو دونوں طرف زمین پر میزائلوں کا سامنا کرتے ہیں اور اس ”خوابوں کی دنیا“ میں قوم کے فخر کے لیے خون دیتے ہیں۔

یقیناً، تناؤ کم کرنا ابھی بھی ممکن ہے، لیکن اس کے لیے ایک بہت بڑی شرط ضروری ہوگی۔

اگر بھارت یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس نے اپنی طاقت سے زیادہ بڑھ کر قدم اٹھایا اور یہ غلط اندازہ لگایا کہ صرف طاقت دکھانے سے یکطرفہ کارروائی کو درست ثابت کیا جا سکتا ہے، بغیر کسی ثبوت یا عالمی حمایت کے، تو اسے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ”پاکستان کو سبق سکھانے“ کے لیے عسکری برتری نہیں رکھتا۔

لیکن اگر بھارت ایسا کرتا ہے تو یہ صرف دہلی میں ہندوتوا کے اثر کو نہیں بلکہ اس کا قصہ بھی تمام کردے گا جو بھارت خود کو سناتا ہے کیونکہ یہی کہانی اب بھارت کے فیصلوں کی حدود متعین کرچکی۔

کاپی رائٹ: بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف