حکومت ملک بھر میں موجودہ متبادل کرنٹ (اے سی) فینز کی جگہ زیادہ توانائی بچانے والے ڈائریکٹ کرنٹ (ڈی سی) فینز لگانے کے لیے ایک قومی پروگرام شروع کرنے جا رہی ہے۔ اس منصوبے کی مالی معاونت کمرشل بینکس کریں گے اور اس کی ادائیگی بجلی کے بلوں کے ذریعے قسطوں میں کی جائے گی۔

یہ معلومات وفاقی سیکریٹری پاور ڈاکٹر فخرالاسلام عرفان نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں دیں جس کی صدارت محمد ادریس نے کی۔ ڈاکٹر عرفان کے مطابق اہم پنکھا ساز کمپنیوں کے ساتھ نیشنل انرجی ایفیشنسی اینڈ کنزرویشن اتھارٹی (این ای ای سی اے) کی باقاعدہ مشاورت جاری ہے، اور کئی بڑی کمپنیاں پہلے ہی اے سی فینز کی تیاری چھوڑ کر ڈی سی فینز بنانے پر منتقل ہو چکی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم کی جانب سے ایک نیا پروگرام متعارف کرایا گیا ہے جو اسی مالی سال میں شروع کیا جائے گا۔ اس پروگرام کے تحت صارفین بینکوں سے قرضہ حاصل کر کے پرانے اور غیر مؤثر اے سی فینز کی جگہ جدید ڈی سی فینز لگوا سکیں گے، اور یہ قرض بجلی کے بلوں کے ذریعے آسان اقساط میں واپس کیا جائے گا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ اگر اے سی فینز کو ڈی سی فینز سے تبدیل کر دیا جائے تو 5,000 میگاواٹ تک بجلی بچائی جا سکتی ہے، جس سے نئی پیداواری صلاحیت کی ضرورت نہیں رہے گی۔ فی الحال، اے سی فینز سالانہ 388 ملین یونٹ بجلی استعمال کرتے ہیں جس پر 25 ملین ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ ایئر کنڈیشنرز 135 ملین یونٹ (7 ملین ڈالر)، جبکہ ریفریجریٹرز 1,073 ملین یونٹ (53 ملین ڈالر) استعمال کرتے ہیں۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ تمام سرکاری اداروں میں توانائی کی بچت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ وفاقی وزیر توانائی نے تمام سرکاری محکموں کو توانائی بچت سے متعلقہ عمارتوں کے کوڈ پر عملدرآمد کے لیے خطوط لکھے ہیں، جبکہ صوبائی حکومتوں کو بھی یہی کوڈ نافذ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ کمیٹی نے سفارشات صوبائی حکومتوں کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔

حکومت کا ہدف ہے کہ 2030 سے سالانہ 6.4 ارب ڈالر کی بچت ممکن بنائی جائے، جس کے لیےکم از کم توانائی کی کارکردگی کے معیارات (ایم ای پی ایس) نافذ کیے جائیں گے۔

اجلاس کے دوران رکن قومی اسمبلی چوہدری نصیر احمد عباس نے انکشاف کیا کہ اسلام آباد کے کچھ گیسٹ ہاؤسز بجلی چوری میں ملوث ہیں، اور یہ کام اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو) کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک آئیسکو اہلکار کا اپنا گیسٹ ہاؤس ہے جسے براہ راست بجلی فراہم کی جاتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جن صارفین نے سولر پینلز لگائے ہیں، انہیں بھی غیر ضروری طور پر زیادہ بل بھیجے جا رہے ہیں۔ مزید برآں، کئی سرکاری عمارتوں اور واٹر پمپس کے میٹر خراب یا جلے ہوئے ہیں، اس کے باوجود صارفین کو اضافی بل بھیجے جا رہے ہیں جن میں بجلی چوری کا بوجھ بھی شامل ہے۔

اجلاس میں حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (حیسکو) اور سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (سیپکو) کی وصولیوں اور نقصانات پر بھی بات ہوئی۔ پاور ڈویژن اور کمپنیوں کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار میں تضاد پایا گیا، جس کے باعث وفاقی وزیر توانائی سردار اویس لغاری اور حیسکو کے سی ای او کے درمیان اختلاف پیدا ہوا۔ ایڈیشنل سیکریٹری پاور ڈویژن امتیاز گلانی نے تسلیم کیا کہ حیسکو اور سیپکو کی کارکردگی پچھلے سال کے مقابلے میں مزید خراب ہوئی ہے۔

وفاقی وزیر توانائی نے ”انڈیکیٹو جنریشن کیپیسٹی ایکسپنشن پلان (آئی جی سی ای پی) 35-2025“ کے حوالے سے بریفنگ میں بتایا کہ جب موجودہ حکومت آئی تو 90,014 میگاواٹ کے منصوبے زیر غور تھے۔ مہنگے منصوبے ختم کر کے حکومت نے 1,953 ارب روپے کا بوجھ کم کیا۔ مزید یہ کہ منصوبوں کے اوقات کار میں تبدیلی سے 2,790 ارب روپے کی بچت ہوئی، جس سے مجموعی طور پر صارفین کو 4,700 ارب روپے کا فائدہ پہنچا۔

انہوں نے زور دیا کہ ان اقدامات کی بدولت اب اضافی بجلی خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور بجلی کے نرخوں میں متوقع اضافہ بھی نہیں ہوگا۔

کراچی سے ایم این اے امین الحق نے شہر میں بجلی کی ترسیل کے دوران حفاظتی اقدامات کے بارے میں پوچھا۔ کے الیکٹرک کی چیف ڈسٹری بیوشن آفیسر سعدیہ دادا نے بتایا کہ گرمیوں اور مون سون کے موسم میں سخت حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ بارش کے دوران پانی جمع ہونے اور غیر قانونی کنکشنز (کنڈے) سے مسائل بڑھتے ہیں۔ جانوں کے تحفظ کے لیے کے الیکٹرک بارش کے دوران گرڈ عارضی طور پر بند کر دیتی ہے اور پانی کے اترنے کے بعد بجلی بحال کر دی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کے الیکٹرک کے پاس 2,100 فیڈرز ہیں، جن میں سے 70 فیصد لوڈ شیڈنگ سے آزاد ہیں جبکہ صنعتی علاقوں میں مکمل طور پر لوڈ شیڈنگ ختم کر دی گئی ہے۔ کے الیکٹرک آئندہ دنوں میں اپنے نظام کو بہتر بنانے کے لیے 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی، جس کی منظوری نیپرا سے لی جا رہی ہے۔

پاور ڈویژن کے سیکریٹری ڈاکٹر فخرے عالم عرفان نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ کے الیکٹرک کو فی الوقت نیشنل گرڈ سے 900 میگاواٹ بجلی مل رہی ہے، جسے جلد 1,600 میگاواٹ تک بڑھا دیا جائے گا۔ اس سے حکومت پر سبسڈی کا مالی بوجھ کم ہوگا۔

ایسے علاقے جہاں بجلی کے نقصانات 80 سے 100 فیصد تک ہیں، ان میں بجلی کی بحالی سے متعلق بھی بات ہوئی۔ وزیر توانائی نے کہا کہ ان علاقوں میں بجلی کی فراہمی کے لیے پالیسی عوامی نمائندوں کی مشاورت سے بنائی جائے گی، لیکن اگر نقصانات برقرار رہے تو بجلی فراہم نہیں کی جائے گی۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف