قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت نے پیر کے روز وزارت تجارت اور واشنگٹن میں موجود پاکستانی سفارت خانے پر زور دیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ دو طرفہ تجارتی صورتحال کو واضح طور پر سمجھنے کی کوششیں جاری رکھیں۔
کمیٹی کا اجلاس چیئرمین جاوید حنیف خان کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں امریکہ کے ساتھ تجارت سے متعلق معاملات کو ان کیمرہ سیشن میں زیر بحث لایا گیا۔ اجلاس میں سیکریٹری تجارت جواد پال اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر نے کمیٹی کو پاک-امریکہ تجارتی تعلقات اور ان کے پاکستان پر مالی اثرات سے آگاہ کیا۔
سیکریٹری تجارت، جنہیں تاحال بین الوزارتی وفد کے ساتھ امریکہ جانے کی اجازت نہیں ملی، نے امریکی صدر کی جانب سے اعلان کردہ 29 فیصد نئے ٹیرف کے ممکنہ مالی اثرات پر بریفنگ دی۔ انہوں نے ان ٹیرف سے پاکستان کی برآمدات اور صنعتوں پر پڑنے والے اثرات پر بھی روشنی ڈالی۔
ذرائع کے مطابق، کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ جن شعبہ جات کو ان ٹیرف سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے، ان کو پہلے ہی مطلع کیا جا چکا ہے اور انہیں نقصان کم کرنے کے لیے حکمتِ عملی تیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ غیر مصدقہ رپورٹس کے مطابق، پاکستان کو 2 ارب ڈالر تک کی برآمدی آمدن کا نقصان ہو سکتا ہے۔ تاہم، پاکستان نے اس خسارے سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی تیار کر لی ہے۔
امریکہ میں پاکستان کے سفیر نے کمیٹی کو پاک-امریکہ سفارتی تعلقات اور امریکی انتظامیہ و پاکستانی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کے ساتھ ہونے والی حالیہ ملاقاتوں کے بارے میں بھی بریفنگ دی۔
کمیٹی کے ارکان نے امریکہ اور دیگر ممالک پر عائد بلند ٹیرف کے تناظر میں پیدا ہونے والے ممکنہ تجارتی خلا اور پاکستان کی جانب سے اس خلا کو پر کرنے کی صلاحیت پر سوالات اٹھائے۔ سفیر نے بتایا کہ امریکہ، پاکستان جیسے 25 کروڑ آبادی کے ملک اور اپنے دیرینہ شراکت دار کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔
اجلاس کے دوران یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ پاکستان کی صنعتی پیداواری صلاحیت اتنی نہیں کہ وہ چین یا دیگر ممالک کی جگہ امریکی مارکیٹ کو مکمل طور پر سپلائی دے سکے۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے موجودہ بورڈ کی مدت کے حوالے سے سیکریٹری تجارت نے بتایا کہ قائمہ کمیٹی کی سفارشات پر وزارت نے ایک سمری تیار کی ہے، تاہم وزارت کا مؤقف بعض سفارشات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ سمری وزارت قانون و انصاف کو رائے کے لیے بھیجی جا چکی ہے، جس کے بعد اسے کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔ کمیٹی نے اس سمری پر جلد فیصلہ کرنے پر زور دیا۔
میٹل/اسٹیل سیکٹر کے لیے ایکسپورٹ فسیلیٹیشن اسکیم (ای ایف ایس) اور کابینہ سے منظور شدہ ڈرافٹ ایس آر او جاری نہ ہونے پر بھی بحث ہوئی۔ اس تاخیر کے باعث درجنوں کنسائنمنٹس بندرگاہوں پر پھنس گئے ہیں، جس سے درآمد کنندگان متاثر ہو رہے ہیں۔
ایف بی آر کے ممبر کسٹمز پالیسی، واجد علی نے کمیٹی کو بتایا کہ منصوبہ بندی و ترقی کے وزیر کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی اس مسئلے پر کام کر رہی ہے اور اس نے ایس آر او کو زیادہ قابل عمل بنانے کے لیے متعدد سفارشات دی ہیں۔ بعض ایکسپورٹرز نے 5 ارب روپے سے زائد ڈیوٹیز ادا کر کے اپنی کنسائنمنٹس ریلیز کروا لی ہیں۔
کچھ ارکان نے ایف بی آر پر بدنیتی کا الزام لگایا کہ اس نے کابینہ کی منظوری کے باوجود ایس آر او نافذ نہیں کیا، تاہم چیئرمین کمیٹی نے نشاندہی کی کہ اس اسکیم کا ماضی میں درآمد کنندگان کی جانب سے غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔
چیئرمین نے ایف بی آر کو ہدایت دی کہ کنسائنمنٹس کو بینک گارنٹی کے عوض ریلیز کرنے کے امکان پر غور کیا جائے، جس پر ایف بی آر کے رکن نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ تجویز قابل غور ہے۔
آخر میں، کمیٹی نے وزارت تجارت کی اس تجویز کی منظوری دی کہ ان چینی مصنوعات کو اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے جو چین کے تعاون سے چلنے والے گرانٹ پر مبنی ترقیاتی منصوبوں میں استعمال ہو رہی ہیں، جیسا کہ کسٹمز ایکٹ 1969 کے تحت ان پر ڈیوٹی کی چھوٹ دی گئی ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments