آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صنعتی کیپٹو پاور پلانٹس (سی پی پیز) پر بجلی کے نرخوں میں کمی کے مطابق پیک اور آف پیک اوقات کے لیے گرڈ لیوی کا ازسرنو جائزہ لے۔

سیکریٹری پٹرولیم ڈویژن مومن آغا کو لکھے گئے خط میں اپٹما کے سیکریٹری جنرل شاہد ستار نے کہا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں توانائی کی عالمی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، برینٹ کروڈ کی قیمت 75 ڈالر فی بیرل سے گر کر 65 ڈالر فی بیرل پر آ گئی ہے اور توقع ہے کہ یہ 50 ڈالر فی بیرل تک گر جائے گی، جس کی بڑی وجہ عالمی اقتصادی دباؤ جیسے امریکی تحفظ پسند پالیسیوں، جاری امریکی-چین تجارتی تنازعے اور چین کی طرف سے امریکی ایل این جی پر عائد کردہ ٹیرف کی وجہ سے ہے۔

اگرچہ یہ کمی زیادہ تر مینوفیکچرنگ معیشتوں کے لئے فائدہ مند ہے لیکن یہ پاکستان کی برآمدی صنعت کے لیے ایک سنگین چیلنج ثابت ہورہی ہے۔

اپٹما نے دعویٰ کیا کہ جیسے جیسے عالمی سطح پر توانائی کی قیمتوں میں کمی واقع ہو رہی ہے، علاقائی حریف 5 سے7 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے درمیان بہت کم نرخوں پر گیس تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں کیپٹو پاور جنریشن کے لیے گیس 4291 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو (15.38 ڈالر) ہے جس میں 791 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کی لیوی بھی شامل ہے، اس سے پاکستان کے برآمد کنندگان کو شدید نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔

ایسے ممالک جیسے بنگلہ دیش، جہاں 80 فیصد صنعت گیس پر مبنی کیپٹیو پاور پر چلتی ہے، اور ویتنام، جہاں صنعت کا بڑا حصہ کیپٹیو جنریشن پر انحصار کرتا ہے، سستی گیس کی قیمتوں سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اسی طرح بھارت، چین، بنگلہ دیش اور ویتنام کی صنعتیں بجلی کے لیے صرف 5 سے 9 سینٹ فی کلو واٹ ادا کر رہی ہیں جبکہ پاکستانی صنعتی صارفین کو گرڈ سے 11 سے 13 سینٹ فی کلو واٹ بجلی مل رہی ہے۔

ٹیکسٹائل جیسے توانائی سے بھرپور اور کم مارجن والے شعبے کے لیے توانائی کی لاگت میں یہ فرق بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کرنا ناممکن بنا دیتا ہے۔

پاکستان کے طویل المدتی ایل این جی معاہدے صنعتوں کو نسبتاً کم نرخوں پر گیس فراہم کرنے کا ایک مؤثر موقع فراہم کرتے ہیں۔ برینٹ کروڈ کی قیمت اگر 60 ڈالر فی بیرل ہو تو ان معاہدوں کے تحت ایل این جی کی درآمدی قیمتیں تقریباً 6.12 ڈالر/ایم ایم بی ٹو یو (قطر پٹرولیم، 10.2 فیصد سلوپ)، 8.02 ڈالر/ایم ایم بی ٹو یو (قطر گیس، 13.37 فیصد سلوپ)، اور 7.28 ڈالر/ایم ایم بی ٹو یو (ای این آئی، 12.14 فیصد سلوپ) بنتی ہیں۔ یہ نرخ کیپٹیو پاور استعمال کرنے والے صارفین کے موجودہ ٹیرف کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہیں۔اگر صنعتوں کو بغیر کسی اضافی کراس سبسڈی اور سرچارج کے مکمل لاگت پر آر ایل این جی فراہم کی جائے تو پاکستان اپنی صنعتی مسابقت میں نمایاں بہتری لا سکتا ہے۔ اپٹما کے مطابق، جب سے گرڈ ٹرانزیشن لیوی کا نفاذ 791 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے کیا گیا ہے اس کے بعد سے گرڈ سے حاصل کی جانے والی بجلی کے نرخوں میں کمی آئی ہے۔

مزید یہ کہ یہ لیوی صنعتی بجلی کے پیک ٹیرف کی بنیاد پرعائد کی گئی ہے جو صرف 24 میں سے 4 گھنٹوں پر لاگو ہوتی ہے۔ حساب کتاب میں ان 20 گھنٹوں کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہے جن میں آف پیک ٹیرف لاگو ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے آف پیک ٹیرف کی بنیاد پر ایک الگ لیوی مقرر کی جانی چاہیے اور اسے گرڈ کے آف پیک اوقات میں لاگو کیا جائے تاکہ بجلی کی اصل لاگت کی درست عکاسی ہوسکے۔

مزید برآں، ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل دونوں اس وقت جنوری 2025 سے استعمال شدہ گیس پر یہ لیوی سابقہ تاریخوں سے نافذ کر رہے ہیں، جو کہ واضح طور پر قانونی ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ ان ضوابط کے تحت کسی بھی قسم کے چارجز، ٹیکس وغیرہ صرف اس تاریخ سے لاگو کیے جا سکتے ہیں جس تاریخ کو ان کا باقاعدہ طور پر نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہو، جیسا کہ گرڈ ٹرانزیشن لیوی کے معاملے میں درکار ہے۔

اپٹما نے مزید کہا کہ یہ لیوی 7 مارچ 2025 کو نوٹیفائی کی گئی تھی، لہٰذا اس تاریخ سے پہلے کی کوئی بھی بلنگ غیرقانونی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی کو ہدایت کی جائے کہ وہ اپنی بلنگ کو فوری طور پر درست کریں تاکہ لیوی کی مؤثر تاریخ یعنی 7 مارچ 2025 کے بعد سے ہی اس کا اطلاق ظاہر کیا جا سکے۔

ایسوسی ایشن نے استدلال کیا کہ کوجنریشن سسٹم جو بیک وقت بجلی اور تھرمل توانائی (بھاپ / گرم پانی) پیدا کرتے ہیں، موجودہ قیمتوں کے نظام کے تحت خاص طور پر نقصان دہ ہیں۔ اگرچہ سنگل سائیکل کیپٹو پاور صارفین بڑے پیمانے پر گرڈ بجلی کی طرف منتقل ہوگئے ہیں ، (سوائے ان علاقوں کے جہاں گرڈ انفرااسٹرکچر دستیاب یا موزوں نہیں) ، کوجنریشن صارفین اپنی مربوط تھرمل توانائی کی ضروریات کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکتے ہیں۔صنعتی عمل کے لیے گیس کی فراہمی 2,200 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو پر کی جاتی ہے، جس میں اضافہ متوقع ہے کیونکہ ایس این جی پی ایل نے اپنی قدرتی گیس کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافے کی درخواست کی ہے جبکہ ایس ایس جی سی نے مالی سال 2026 کے لیے 145 فیصد اضافے کی درخواست کی ہے۔چونکہ کوجنریشن سسٹم دونوں بجلی اور پروسیس کی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور یہ گیس کے وسائل کا سب سے مؤثر استعمال ہے، اس لیے ان صارفین کو 4,291 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے زیادہ کیپٹیو گیس قیمت کے تابع کرنا غیر مناسب ہے۔

اپٹما نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کیس بلھے شاہ پیکیجنگ بمقابلہ پاکستان میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ صارفین جن کے پاس صنعتی استعمال کے لیے قدرتی گیس کی فراہمی کا معاہدہ ہے اور جو اپنے استعمال کے لیے ان ہاؤس بجلی کی پیداوار کی سہولت رکھتے ہیں (چاہے وہ کوجنریشن کے ساتھ ہو یا بغیر) صنعتی صارفین کے زمرے میں آتے ہیں اور انہیں متعلقہ ٹیرف کے تحت لایا جائے گا، جب تک کہ پیداوار کی سہولت نیپرا کے ضوابط کے مطابق کیپٹیو پاور پلانٹ نہ ہو“، یعنی یہ اضافی بجلی کو ڈسٹری بیوشن کمپنی یا بلک پاور صارف کو بیچنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔

Comments

200 حروف