پاکستان پانی کے سنگین بحران کے دہانے پر ہے، ایسا بحران جو صوبوں کے درمیان تعلقات، زراعت، معیشت اور غذائی تحفظ کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کی قلت سب سے زیادہ ہے اور اگر حالات یہی رہے تو آئندہ چند دہائیوں میں اس کے آبی ذخائر ختم ہوسکتے ہیں۔
اس بڑھتے ہوئے خطرے کے باوجود، ملک میں اب بھی گنا، چاول اور اس جیسی فصلیں اگائی جارہی ہیں جس میں پانی کثرت سے استعمال ہوتا ہے جس سے پہلے ہی کم ہوتے آبی وسائل پر مزید دباؤ پڑ رہا ہے۔
آبپاشی کا ناقص نظام، کسی ضابطے کے بغیر زیر زمین پانی کے حصول اور کمزور پالیسیوں کی وجہ سے پانی کی قلت مزید تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں زمین میں نمکیات جمع ہو رہے ہیں اور کئی علاقے دلدلی ہو رہے ہیں۔
اگر پانی کے بے جا استعمال پر فوری طور پر قابو نہ پایا گیا تو پاکستان صرف ماحولیاتی تباہی ہی نہیں بلکہ معاشی بحران اور غذائی قلت کا بھی سامنا کر سکتا ہے۔
یہ بحران پاکستان کے زرعی مرکز پنجاب میں سب سے زیادہ نقصان کا باعث بن رہا ہے جہاں زیرِ زمین پانی غیر معمولی رفتار سے نکالا جا رہا ہے۔ ہر سال پنجاب 50 ملین ایکڑ فٹ پانی نکالتا ہے، جو کہ ملک کے کل سطحی پانی کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 13.5 ملین ایکڑ فٹ سے کہیں زیادہ ہے۔
پانی کا بے ہنگم اور مسلسل حصول بارشوں اور صرف دریائے سندھ کے پانی پر انحصار کی وجہ سے بڑھ رہا ہے اور یہ زیادہ تر گنے اور چاول کی کاشت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
کسان اپنے پانی کی زیادہ مقدار استعمال کرنے والے فصلوں کو بچانے کے لیے گہرے کنویں کھودتے ہیں، جس سے وہ اکثر نمکین پانی تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس سے نہ صرف آبی ذخائر ختم ہوتے ہیں بلکہ مٹی کا معیار بھی خراب ہوتا ہے جس سے آئندہ فصلوں کی پیداوار کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اگر اس حد سے زیادہ پانی نکالنے کا یہ سلسلہ بلا روک ٹوک جاری رہا تو پنجاب کو سنگین پانی کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے جس سے ملک میں خوارک کی پیدوار متاثر ہوگی اور لاکھوں لوگوں کا روزگار خطرے میں پڑ جائے گا وہ آبی ذخیرہ جو ہزاروں سالوں میں تیار ہوئے ہیں اب شدید دباؤ کا شکار ہیں۔
جبکہ پنجاب کو زیر زمین پانی کی کمی کا سامنا ہے، سندھ کو پانی کے ایک بالکل مختلف بحران کا سامنا ہے – سندھ پانی کے ایک بالکل مختلف بحران سے دوچار ہے جو زیادہ آبپاشی کی وجہ سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے زمین کا ایک بڑا حصہ پانی میں ڈوب جاتا ہے اور زمین نمکین یا کھاری ہوجاتی ہے۔ بالائی سندھ کی تقریبا ںصف آبپاشی زمین اب متاثر ہوئی ہے، حالانکہ اس کی شدت خطے کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔
سکھر بیراج، جو پاکستان کے آبپاشی کے نظام کا ایک اہم جزو ہے، کے پانی کا تقریبا ایک چوتھائی حصہ غیر موثر ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک اور رساؤ کی وجہ سے ضائع ہوجاتا ہے، جس کا تخمینہ سالانہ تقریبا 4 ملین ایکڑ فٹ ہے۔
اس کے نتیجے میں، پانی کی سطح بڑھتی جا رہی ہے، جس سے پانی کا جمع ہونا اور نمک کا اوپر آنا شروع ہو گیا ہے، اور جو زمین کبھی زرخیز تھی، وہ بنجر ویرانوں میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اس بدانتظامی کے معاشی اثرات تباہ کن ہیں۔
ورلڈ بینک نے 2000 کی دہائی کے اوائل میں مٹی میں نمک پن یا نمکینیت کی وجہ سے سالانہ 1.5 ارب ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا تھا اور یہ رقم ممکنہ طور پر اس کے بعد بہت بڑھ چکی ہے۔ جیسے جیسے مزید زرعی اراضی ناقابل کاشت بن رہی ہے غذائی تحفظ کی کمی بڑھتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو مہنگی خوراک کی درآمدات پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے جو کہ ایک ایسی ملک کے لیے جو پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے، ایک غیر مستحکم حل ہے۔
پاکستان میں تمام پانی کے زیادہ استعمال کرنے والی فصلوں میں، گنا سب سے زیادہ غیر مؤثر مگر سب سے زیادہ سبسڈی والی فصلوں میں شامل ہے۔ 3.2 ملین ایکڑ میں پھیلا ہوا گنا ہر سال 18 ملین ایکڑ فٹ آبپاشی کا پانی استعمال کرتا ہے، جو کہ پاکستان کے کل پانی کے وسائل کا تقریباً 17 فیصد بنتا ہے۔
اس کے باوجود حکومت کی زیادہ سبسڈی اور شوگر انڈسٹری کا مضبوط اثر و رسوخ گنے کی کاشت کو فروغ دیتا ہے حالانکہ یہ فصل پانی کے استعمال کے لحاظ سے عالمی معیار سے کافی پیچھے ہے۔ پاکستان میں گنے کی فصل کی پانی کے ساتھ پیداوار (سی ڈبلیو پ) صرف 2.28 کلوگرام فی مکعب میٹر ہے جبکہ عالمی اوسط 3.5 کلوگرام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو اتنا ہی گنا اگانے کے لیے دوسرے ممالک کے مقابلے میں 53.5 فیصد زیادہ پانی درکار ہوتا ہے۔
اس غیر مؤثر نظام میں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اگائے جانے والے گنے میں صرف 8 سے 10 فیصد تک چینی (سکروز) ہوتی ہے، جبکہ دیگر چینی پیدا کرنے والے ممالک ایسی اقسام اگاتے ہیں جن میں 12 سے 14 فیصد تک سکروز ہوتا ہے۔ نتیجتاً، پاکستان کو اتنی ہی مقدار میں چینی حاصل کرنے کے لیے 20 فیصد زیادہ گنا اگانا پڑتا ہے اور 20 فیصد زیادہ پانی استعمال کرنا پڑتا ہے۔
ریفائننگ کا عمل اس فضلے کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ صرف ایک کلو گرام ریفائنڈ چینی کی پیداوار کے لئے 1،750 لیٹر (1.75 ایم 3) پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان سالانہ 60 لاکھ ٹن ریفائنڈ چینی پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں 10.5 ملین ایکڑ فٹ پانی صرف چینی کی پیداوار کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جو پہلے ہی پانی کی شدید قلت کا سامنا کر رہا ہے، اس طرح کی نااہلی کسی بحران سے کم نہیں ہے۔
چاول کی کاشت، جو پاکستان کے پانی کے بحران کا ایک اور بڑا سبب ہے، اسی طرح کے فضول طریقوں کا شکار ہے۔ 8.9 ملین ایکڑ رقبے پر اگنے والے چاول کو ہر سال 14 ملین ایکڑ فٹ پانی کی ضرورت ہوتی ہے جس کی بنیادی وجہ سیلاب سے آبپاشی کے فرسودہ طریقے ہیں۔
کسان عام طور پر ہر سیزن میں 1،200-2،000 ملی میٹر پانی استعمال کرتے ہیں، جو مطلوبہ 800-1،000 ملی میٹر سے تقریبا دوگنا ہے، جس کی وجہ سے سالانہ تقریبا 3.65 ملین ایکڑ فٹ پانی کا غیر ضروری ضیاع ہوتا ہے۔
چینی کو صاف (ریفائن) کرنے کا عمل پانی کے ضیاع کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ صرف ایک کلو چینی تیار کرنے کے لیے تقریباً 1,750 لیٹر (1.75 مکعب میٹر) پانی درکار ہوتا ہے۔ چونکہ پاکستان ہر سال 60 لاکھ ٹن ریفائن چینی تیار کرتا ہے اس لیے صرف چینی کی تیاری میں 10.5 ملین ایکڑ فٹ پانی خرچ ہو جاتا ہے۔ ایسے ملک میں، جو پہلے ہی شدید پانی کی کمی کا شکار ہے، یہ غیر مؤثر استعمال ایک سنگین بحران ہے۔
چاول کی کاشت، جو پاکستان کے پانی کے بحران کی ایک اور بڑی وجہ ہے، بھی ایسی ہی فضول روشوں کا شکار ہے۔ چاول 8.9 ملین ایکڑ پر اگایا جاتا ہے اور اس کی کاشت کیلئے سالانہ 14 ملین ایکڑ فٹ پانی درکار ہے جس کی وجہ سیلاب سے کاشتکاری کے فرسودہ طریقے ہیں۔
کسان عام طور پر ایک سیزن میں 1,200 سے 2,000 ملی میٹر پانی استعمال کرتے ہیں، حالانکہ ضرورت صرف 800 سے 1,000 ملی میٹر ہوتی ہے۔ اس اضافی پانی کے استعمال کی وجہ سے ہر سال تقریباً 3.65 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔
“پاکستان میں چاول کی کاشت کے لیے پانی کی کارکردگی خطرناک حد تک کم ہے، جو صرف 0.23 سے 0.45 کلوگرام فی مکعب میٹر کے درمیان ہے۔ اس کے مقابلے میں مصر، جہاں موسم تقریباً ویسا ہی ہے، جدید آبپاشی کے طریقے اپنا کر 0.79 کلوگرام فی مکعب میٹر حاصل کر چکا ہے اور وہ اتنی ہی مقدار میں چاول اگانے کے لیے 40 فیصد کم پانی استعمال کرتا ہے۔
آبپاشی کے ان فرسودہ طریقوں پر پاکستان کا انحصار نہ صرف قیمتی پانی ضائع کرتا ہے بلکہ زمین سے غذائیت بھی کم کر دیتا ہے جس سے طویل مدتی پیداوار میں مزید کمی آتی ہے۔
معاملات کو مزید خراب کرنے کے لئے، ملک کی چاول کی برآمدات اس مسئلے کو بڑھاتی ہیں۔ پاکستان ہر سال 40 لاکھ ٹن چاول برآمد کرتا ہے جس سے 8.1 ملین ایکڑ فٹ پانی بیرون ملک بھیجا جاتا ہے۔ اگر اسے سمجھنے کی کوشش کی جائے، تو یہ مقدار کراچی کی ڈیڑھ سال کی کل پانی کی سپلائی کے برابر ہے۔
ایسے وقت میں جب بڑے شہروں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور زیرِ زمین پانی تیزی سے ختم ہو رہا ہے چاول کی صورت میں اتنی بڑی مقدار میں پانی برآمد کرنا ایک غیر پائیدار اور غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔
گنا اور چاول مل کر سالانہ 32 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی استعمال کرتے ہیں — جن میں سے 18 ایم اے ایف گنا اور 14 ایم اے ایف چاول کے لیے صرف ہوتا ہے — حالانکہ یہ دونوں فصلیں پانی کی کارکردگی کے لحاظ سے بہت کم فائدہ دیتی ہیں۔ پنجاب میں زیرِ زمین پانی کا حد سے زیادہ نکالا جانا آبی ذخائر کو تیزی سے ختم کر رہا ہے جبکہ سندھ میں ضرورت سے زیادہ آبپاشی زرخیز زمین کو نمکین بنارہی ہے۔
عالمی سطح پر دیکھا جائے تو پاکستان کی یہ غیر مؤثر زرعی پالیسی نمایاں ہو جاتی ہے — گنا آبپاشی کے نظام پر بھاری بوجھ ڈال رہا ہے اور چاول کی برآمد کے ذریعے قیمتی پانی بیرونِ ملک جا رہا ہے۔ صرف چاول کی کاشت میں 3.65 ایم اے ایف پانی کا ضیاع پاکستان کو ایک مکمل پانی کے بحران کی طرف دھکیل رہا ہے جو کہ غذائی تحفظ، معیشت اور کروڑوں لوگوں کے روزگار کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
پاکستان کو اب یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ اس کا سب سے قیمتی وسیلہ چینی یا چاول نہیں، بلکہ ’پانی‘ ہے۔ اگر فوری طور پر آبپاشی کے طریقوں میں اصلاحات نہ کی گئیں، کم پانی استعمال کرنے والی فصلوں کی طرف رخ نہ موڑا گیا اور پانی کے بہتر انتظام کے لیے سخت پالیسیاں نہ بنائی گئیں تو ملک کا زرعی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔ اب عمل کا وقت ہے، تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔
Comments