ٹیکس کے باوجود سولر پاور پر منتقلی کی رفتار برقرار، مقامی صنعت طلب پوری نہیں کرسکتی، ماہرین
توانائی ماہرین کا ماننا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے طے کردہ کسی بھی شرح پر سولر پینلز کی درآمد پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) عائد کیے جانے سے پاکستان کی تیزی سے بڑھتی قابلِ تجدید توانائی کی جانب منتقلی کی رفتار متاثر نہیں ہوگی۔
مزید برآں حکومت کے اس مفروضے کے برعکس کہ جی ایس ٹی کے نفاذ سے مقامی صنعت کو فروغ ملے گا۔ ماہرین کا مؤقف ہے کہ یہ اقدام الٹا اثر ڈالے گا، کیونکہ مقامی صنعت ابھی ترقی یافتہ نہیں اور موجودہ وقت میں مارکیٹ کی طلب کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
ان خیالات کا اظہار قابلِ تجدید توانائی کے ماہرین، صنعتکاراور کلائمٹ ایکٹوسٹ نے ایک ویبینار میں کیا۔ ویبینار کا اہتمام انرجی اپڈیٹ اور پاکستان سولر ایسوسی ایشن (پی ایس اے) نے مشترکہ طور پر کیا جس کا عنوان “سورج پر ٹیکس: کیا پاکستان میں سولر کا مستقبل روشن رہے گا؟ تھا۔
ویبینار کے دوران شرکاء نے وفاقی حکومت کی حالیہ بجٹ تجاویز کا تفصیلی جائزہ لیا جن کے تحت سولر پینلز پر جنرل سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
وفاقی بجٹ میں حکومت نے درآمدی سولر پینلز پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی جس پر خاصی بحث چھڑگئی، تاہم مشاورت کے بعد حکومت نے اس شرح کو کم کرکے 10 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے چیئرمین وقاص موسیٰ نے اس بات پر زور دیا کہ 2020 سے 2030 کا عشرہ عالمی سطح پر صاف توانائی کی جانب منتقلی کے لیے ایک فیصلہ کن دور کے طور پر تسلیم کیا جاچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی صارفین اضافی جی ایس ٹی کے باوجود اپنے گھروں اور کاروبار کو روشن رکھنے کے لیے سولر توانائی اپنانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
تاہم وقاص موسیٰ نے خبردار کیا کہ پاکستان کی مقامی صنعت ابھی اس سطح پر نہیں پہنچی کہ جدید سولر پینلز کی بڑھتی ہوئی طلب کو مطلوبہ مقدار میں پورا کر سکے۔
اس وقت صرف مقامی پیداوار پر بھروسہ کرنا قابلِ تجدید توانائی کے فروغ کی رفتار کو سست یا معطل کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چاہے ٹیکس نافذ کیا جائے یا نہیں مقامی صارفین سولر توانائی کی جانب منتقل ہوتے رہیں گے، کیونکہ قومی گرڈ سے بجلی کی مسلسل قلت اور ناقابلِ برداشت نرخ عوام کو اس متبادل کی جانب بڑھنے پر مجبور کررہے ہیں ۔
اس موقع پر انورکس سولر انرجی کے سی ای او محمد ذاکر علی نے بھی اسی نوعیت کے خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بجلی استعمال کرنے والی بڑی اکثریت ٹیکس کے اثرات کے باوجود قومی گرڈ سے فراہم کی جانے والی بجلی سے ہٹ کر متبادل ذرائع، خصوصاً سولر توانائی کی طرف منتقلی کا سلسلہ جاری رکھے گی۔
ذاکرعلی نے مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان کو ایک مؤثر مقامی صنعت قائم کرنے کے لیے جو بڑے پیمانے پر صاف توانائی کے آلات تیار کرسکے، کم از کم 18 سے 24 ماہ درکار ہوں گے۔
تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ قبل از وقت ٹیکس کا نفاذ مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں دونوں کو بددل کرسکتا ہے۔
انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ صنعتی صارفین کے لیے بجلی کے بلند نرخ سولر پینلز بنانے والے کارخانوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کا باعث بن سکتے ہیں۔
تاہم ذاکرعلی پُرامید رہے کہ ممکنہ چینی سرمایہ کار جلد ہی پاکستانی صنعتکاروں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کا آغاز کریں گے تاکہ سولر پینلز بنانے کے لیے مقامی سطح پر پیداواری یونٹس قائم کیے جا سکیں۔
انورکس کے سی ای او نے وضاحت کی کہ اگر پاکستان میں سولر پینلز کی مقامی تیاری شروع ہو جائے تو اس سے کم از کم پانچ معاون سپلائی انڈسٹریز کا قیام ممکن ہوگا، جو ملک میں صاف توانائی کی سپلائی چین کو نمایاں طور پر مضبوط بناسکتی ہیں۔
سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) سے بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ وابستہ ڈاکٹر خالد ولید کا ماننا ہے کہ شہری علاقوں میں چھتوں پر تیزی سے بڑھتی ہوئی سولر تنصیبات پاکستان کے لیے عالمی ماحولیاتی مالیاتی منڈی سے کاربن کریڈٹس حاصل کرنے کا ایک مؤثر موقع فراہم کرتی ہیں۔
ویبی نار کے دوران کراچی چیمبر کے سابق نائب صدر تنویر بیری نے نشاندہی کی کہ اگرچہ پاکستان کی نصب شدہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 45 ہزار میگاواٹ سے زائد ہے لیکن فرسودہ اور بوجھ تلے دبی ٹرانسمیشن انفرااسٹرکچر کے باعث اس میں سے صرف تقریباً 27,000 میگاواٹ ہی صارفین تک پہنچائی جارہی ہے۔
تنویر بیری نے ملک بھر کے ایسے دیہی گھرانوں اور زرعی کمیونٹیز کا بھی ذکر کیا جو قومی گرڈ سے منسلک نہیں ہیں، اور اس تناظر میں انہوں نے سولر توانائی کے استعمال کے بے پناہ مگر تاحال غیر استعمال شدہ امکانات کو اجاگر کیا۔
Comments