وزیر خزانہ پنجاب میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے آئندہ مالی سال کے لیے 5.33 کھرب روپے کا بجٹ پیش کیا ہے جس میں 740 ارب روپے کا سرپلس شامل ہے، یہ سرپلس وفاقی حکومت اور آئی ایم ایف کو دیے گئے ہدف سے 110.4 ارب روپے زائد ہے جبکہ وفاقی بجٹ میں صوبوں کے لیے مختص کل سرپلس 1217 ارب روپے ہے جس میں پنجاب کا حصہ 51.74 فیصد یعنی 629.6 ارب روپے بنتا ہے۔

یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ اضافی رقم ممکنہ طور پر وفاق کی جانب سے روایتی طور پر قابلِ تقسیم فنڈز کی وصولیوں کو بڑھا چڑھا کر ظاہر کرنے (جو مالی سال 2024-25 میں 126 ارب روپے کم ظاہر کی گئی تھیں) کو مدنظر رکھنے کے لیے رکھی گئی ہے، یا پھر یہ وفاقی حکومت/آئی ایم ایف کو وہ یقین دہانی فراہم کرنے کے لیے ہے جو سندھ کے بجٹ میں آئندہ مالی سال 38 ارب روپے کے خسارے کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی ہے (جہاں سندھ کا صوبائی سرپلس کا حصہ تقریباً 298 ارب روپے تخمینہ لگایا گیا ہے)۔ پنجاب کے بجٹ میں وفاقی منتقلیوں کے طور پر 4.062 کھرب روپے کی توقع کی گئی ہے۔

ایک سنجیدہ تشویش کی بات یہ ہے کہ گزشتہ مالی سال صوبائی ٹیکس وصولیوں میں بجٹ شدہ اور اصل وصولیوں کے درمیان 50.5 ارب روپے کی کمی رہی جو تقریباً 11 فیصد ہے اور یہ پنجاب ریونیو ڈپارٹمنٹ کی آئندہ سال 524.7 ارب روپے کی آمدنی حاصل کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرسکتا ہے۔ گزشتہ سال کے نظرثانی شدہ اندازوں میں غیر ٹیکس آمدن 493.78 ارب روپے تھی جب کہ آئندہ مالی سال اس کی آمدنی صرف 303.44 ارب روپے متوقع ہے۔

اور جو بات مزید تشویشناک ہے وہ یہ ہے کہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں وفاقی منتقلیوں کو چھوڑ کر آمدن میں کمی کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو نظر ثانی شدہ اندازوں میں 853.5 ارب روپے سے گھٹ کر اگلے سال 798.6 ارب روپے رہ جائے گی، یعنی تقریباً 55 ارب روپے کی کمی ہوگی۔

زرعی انکم ٹیکس جو اس سال متعین کیا گیا تھا لیکن اس کا نفاذ یکم جولائی 2025 سے شروع ہوگا جبکہ مؤثر تاریخ یکم جنوری 2025 ہے مالی سال 2025-26 میں صرف 10.5 ارب روپے کی آمدنی کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جب کہ اس آمدنی کا بجٹ مالی سال 2024-25 میں 3.5 ارب روپے تھا اور نظر ثانی شدہ اندازے میں 4 ارب روپے تک پہنچ گیا، جو اگلے مالی سال کے لیے اس ذریعہ سے آمدنی کو 162.5 فیصد سے زائد بڑھانے کا مؤثر تخمینہ بنتا ہے، پھر بھی مجموعی رقم بہت کم ہے اور یہ فرض کرنا پڑے گا کہ پنجاب حکومت کو اس ٹیکس کے نفاذ میں (خاص طور پر مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی اراکین کی جانب سے) مزاحمت کی توقع ہے۔اس کے برعکس، سندھ حکومت نے اس ذریعہ سے 388 ارب روپے کا بجٹ رکھا ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ پنجاب حکومت کم از کم اس ٹیکس کے نفاذ کے پہلے سال میں اس رقم کے برابر آمدنی حاصل کرے گی۔

شہری غیر منقولہ جائیداد سے حاصل ہونے والی آمدنی میں 8 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی ہے جو بجٹ میں 29 ارب روپے سے کم ہوکر نظر ثانی شدہ اندازوں میں 21.96 ارب روپے رہ گئی۔ حکومت نے اگلے مالی سال کے لیے 32.54 ارب روپے کا ہدف رکھا ہے، جو گزشتہ سال کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ممکن نہیں لگتا۔

سروسز پر سیلز ٹیکس میں کمی — جو ایک بالواسطہ ٹیکس ہے اور غریبوں پر اس کا بوجھ امیروں سے زیادہ ہوتا ہے — گزشتہ مالی سال کے نظر ثانی شدہ اندازوں میں 273.7 ارب روپے کم رہی جبکہ حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے اسے 333.5 ارب روپے تک بڑھانے کا ہدف رکھا ہے یعنی تقریباً 22 فیصد اضافہ، جو صوبے میں مہنگائی کو مزید بڑھانے کا سبب بنے گا۔

بجٹ میں شامل تنخواہوں میں اضافے کی وجہ سے آئندہ مالی سال کیلئے ملازمین سے متعلق اخراجات میں 57 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جو گزشتہ سال کے نظر ثانی شدہ اندازوں سے زیادہ ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پنشنرز کے لیے بجٹ کم رکھا گیا ہے تاہم گزشتہ سال کے مقابلے میں آئندہ سال ان کے لیے 22 ارب روپے اضافی مختص کیے گئے ہیں۔

پنجاب نے سندھ کے مقابلے میں ترقیاتی بجٹ میں نمایاں اضافہ کیا ہے، جسے گزشتہ سال کے نظر ثانی شدہ اندازوں کے مقابلے میں 47 فیصد بڑھا کر 842 ارب روپے سے 1240 ارب روپے کردیا گیا ہےتاہم اگر آئندہ سال کے سالانہ ترقیاتی منصوبے کا موازنہ نظر ثانی شدہ اندازوں سے کیا جائے تو یہ اضافہ صرف 11.9 فیصد بنتا ہے۔

تاہم وفاقی حکومت نے صوبائی سالانہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے 2869 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا تھا اور نیشنل فنانس کمیشن کے فیصلے کے مطابق پنجاب کا حصہ (51.74 فیصد) 1484 ارب روپے ہونا چاہیے تھا۔ دوسرے الفاظ میں یہ پنجاب کو وفاقی بجٹ میں متوقع مختص رقم سے 16.5 فیصد کم ہے۔

وقت ہی بتائے گا کہ آیا پنجاب حکومت، دیگر صوبوں اور وفاقی حکومت کی طرح، اپنے بجٹ کے ہدف کامیابی سے پورے کر پائے گی یا نہیں، اور اگر ماضی کے تجربات کو دیکھا جائے تو اس امکان کے حوالے سے زیادہ پر امید نہیں کہا جاسکتا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025

Comments

200 حروف