مارکٹس

توانائی شعبہ 28 فیصد کم گیس استعمال کررہا،ایس این جی پی ایل کو مالی نقصان کا سامنا

  • آر ایل این جی کی کھپت طے شدہ طلب کے مطابق نہ بڑھائی گئی تو نظام میں دباؤ کی زیادتی ری-گیسفکیشن کے عمل کو متاثر کرسکتی ہے
شائع June 18, 2025

ملکی توانائی شعبے نے جون 2025 میں سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کے ساتھ طے شدہ مقدار کے مقابلے میں 28 فیصد کم ریگیسفائیڈ لیکوئیفائیڈ نیچرل گیس (آر ایل این جی) استعمال کی جس کے باعث گیس کمپنی کو شدید عملی اور مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ ایس این جی پی ایل مسلسل اس مسئلے کی نشاندہی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف گیس (پیٹرولیم ڈویژن) اور پاور ڈویژن دونوں کو کررہی ہے۔

اپنے حالیہ بیان میں ایس این جی پی ایل نے واضح کیا کہ توانائی کا شعبہ جون 2025 کے لیے مقرر کردہ 550 ملین مکعب فٹ یومیہ آر ایل این جی کی طلب کے مطابق گیس استعمال نہیں کر رہا۔ حقیقی اوسط کھپت تقریباً 396 ایم ایم سی ایف ڈی رہی جس کے باعث نظام میں اضافی گیس جمع ہورہی ہے۔

ایس این جی پی ایل نے خبردار کیا کہ اگر آر ایل این جی کی کھپت فوری طور پر طے شدہ طلب کے مطابق نہ بڑھائی گئی تو نظام میں دباؤ کی زیادتی ری-گیسفکیشن کے عمل کو متاثر کرسکتی ہے جو دونوں ایل این جی ٹرمینلز پر آپریشن میں خلل کا باعث بنے گی۔ اس صورت میں ایل این جی کارگو کی ترسیل میں تاخیر ہوسکتی ہے جس سے ڈیمرج چارجز اور ٹیک اینڈ پے معاہدوں کے تحت کمپنی کو مالی نقصان برداشت کرنا پڑسکتا ہے۔ متبادل طور پر کمپنی مقامی گیس فیلڈز سے گیس کی فراہمی میں کٹوتی کرنے پر مجبور ہوسکتی ہے۔

ایس این جی پی ایل نے ڈائریکٹوریٹ جنرل (گیس)، پیٹرولیم ڈویژن سے فوری مداخلت کی درخواست کی ہے اور مطالبہ کیا کہ پاور ڈویژن کو فوری طور پر طے شدہ معاہدوں کے مطابق آر ایل این جی کی کھپت یقینی بنانے کے لیے شامل کیا جائے، نیز غیر استعمال شدہ مقدار کو بھی پورا کیا جائے۔ یہ اقدام نظام کی بلا تعطل اور مؤثر کارکردگی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔

نیشنل پاور کنٹرول سینٹر (این پی سی سی)، جو اب آزاد نظام و مارکیٹ آپریٹر (آئی ایس ایم او) کے طور پر کام کررہا ہے، پاور پلانٹس کی ترسیل اقتصادی میرٹ آرڈر (ای ایم او) کی بنیاد پر کرتا ہے۔ تاہم، متعدد مواقع پر آئی ایس ایم او نے مختلف پاور پلانٹس کی غیر متوقع یا شیڈول بندشوں کے باعث ای ایم او سے انحراف کیا ہے۔

آئی ایس ایم او کا مؤقف ہے کہ پاور پلانٹس کی جزوی آپریشنل استعداد کے مطابق چلانا ان کے متعلقہ پاور پرچیز ایگریمنٹس (پی پی ایز) کی شقوں کے عین مطابق ہے اور تمام آپریشنل فیصلے انہی معاہدوں کی روشنی میں کیے جاتے ہیں۔

تاہم نیپرا کی عوامی سماعتوں کے دوران این پی سی سی کے جنرل منیجر کو اکثر اس بات پر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ نسبتاً سستے اور مقامی ایندھن سے چلنے والے پاور پلانٹس کو نظرانداز کرتے ہوئے مہنگے آر ایل این جی سے چلنے والے یونٹس کو ترجیح دیتے ہیں، خصوصاً جب وسطی پنجاب میں بجلی کی بلند ترین طلب کو پورا کرنا مقصود ہو۔

ان سماعتوں کے دوران اسٹیک ہولڈرز نے یہ تجویز پیش کی کہ آئی ایس ایم او کو چاہیے کہ وہ بجلی کی پیداوار کے ذرائع اور ان سے منسلک ایندھن کی لاگت کا رئیل ٹائم ڈیٹا جاری کرے، تاکہ نظام میں شفافیت کو فروغ دیا جا سکے اور پالیسی سازوں کو مؤثر اور باخبر فیصلے کرنے میں مدد ملے۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے 19 مارچ 2025 کے فیصلے کے مطابق یکم جنوری 2025 سے ٹیک اینڈ پے کی کم از کم حد 50 فیصد کر دی گئی ہے، یہ ترمیم مئی 2025 سے لاگو کی جائے گی، جیسا کہ پاور ٹاسک فورس کے ایک اجلاس میں طے پایا۔

اپنے اضافی نوٹ میں، جو اپریل 2025 کے لیے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کے فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) کے تعین سے متعلق تھا، ممبر (ٹیکنیکل) رفیق احمد شیخ نے نشاندہی کی کہ یو سی ایچ-I اور اینگرو پاور جن قادرپور جیسے کم لاگت والے پلانٹس کی جبری بندش، خاص طور پر بلند طلب کے دوران، سستے اور مقامی وسائل کے مؤثر استعمال میں رکاوٹ بنی۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ ان جبری بندشوں کے باعث مہنگی بجلی پیدا کرنے والے ذرائع پر انحصار بڑھا، جس سے مجموعی ایندھن لاگت میں اضافہ ہوا۔ اگرچہ یہ بندشیں قانونی طور پر قابل قبول ہیں لیکن ان کا بار بار ہونا ایف سی اے کے تعین پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ شفافیت اور جوابدہی کو بہتر بنانے کے لیے انہوں نے تجویز دی کہ سسٹم آپریٹر کو ایف سی اے اجلاسوں میں ان بندشوں کا تفصیلی مالیاتی تجزیہ پیش کرنا چاہیے، جس میں ہر متاثرہ پاور پلانٹ کی گزشتہ تین برسوں کی جبری اور شیڈول بندشوں کی تفصیل بھی شامل ہو تاکہ آپریشنل کارکردگی کا مؤثر جائزہ لیا جاسکے۔

رفیق احمد شیخ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ صرف اپریل 2025 میں پارشل لوڈ ایڈجسٹمنٹ چارجز (پی ایل اے سی) کی مالیت 2.92 ارب روپے (10.39 ملین ڈالر) رہی، جس کے نتیجے میں مالی سال 2024-25 کے دوران ان چارجز کا مجموعی حجم بڑھ کر 32.8 ارب روپے (116.73 ملین ڈالر) تک پہنچ گیا ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی لاگت باعثِ تشویش ہے اور اس کا تفصیلی جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پی ایل اے سی میں کمی کے لیے ایک مؤثر طریقہ کار وضع کیا جائے، جس میں بہتر ڈیمانڈ سائیڈ مینجمنٹ اور نظام کی اصلاح (سسٹم آپٹیمائزیشن) شامل ہو۔

متعلقہ پیشرفت کے تحت پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) نے اطالوی سپلائر ای این آئی سے جولائی تا دسمبر فراہم کیے جانے والے 6 اضافی ایل این جی کارگوز کو بین الاقوامی اسپاٹ مارکیٹ کی طرف موڑ دیا ہے۔ یہ کارگوز ایک ایسے پندرہ سالہ معاہدے کے تحت تھے جس میں ہر ماہ ایک کارگو کی فراہمی شامل ہے۔

پاکستان نے مقامی طلب میں کمی کا حوالہ دیتے ہوئے قطر سے آنے والے پانچ ایل این جی کارگوز کی ترسیل—جو اصل میں 2025 کے لیے شیڈول تھی—موخر کرکے 2026 تک منتقل کردی ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025

Comments

200 حروف