پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں جمعرات کو ایک غیر مستحکم تجارتی سیشن کا مشاہدہ کیا گیا اور بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس دن بھر دونوں سمتوں میں اتار چڑھاؤ کے بعد 260 پوائنٹس کی کمی کے ساتھ بند ہوا۔

کے ایس ای 100 انڈیکس نے سیشن کا آغاز مثبت کیا اور انٹرا ڈے کی بلند ترین سطح 126,718.28 پوائنٹس تک پہنچا۔

تاہم سیشن کے دوسرے نصف میں فروخت کا دباؤ بڑھا جس کی وجہ سے انڈیکس منفی زون میں چلا گیا۔

کاروبار کے اختتام پر بینچ مارک انڈیکس 259.56 پوائنٹس یا 0.21 فیصد کی کمی کے ساتھ 124,093.12 پوائنٹس پر بند ہوا۔

بروکریج ہاؤس ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے اپنی پوسٹ مارکیٹ رپورٹ میں کہا کہ پاکستان اسٹاک مارکیٹ کا تجارتی سیشن منفی نوٹ پر ختم ہوا جس کی وجہ سرمایہ کاروں کا محتاط رویہ اور منافع نکالنے کی سرگرمیاں تھی۔ بینچ مارک انڈیکس انٹرا ڈے کی بلند ترین سطح 2,365 پوائنٹس اور 501 پوائنٹس کی کم ترین سطح پر رہا اور پھر 124,093 پوائنٹس پر بند ہوا جو 260 پوائنٹس یا 0.21 فیصد کی کمی ہے۔

ٹاپ لائن کے مطابق منفی دباؤ کی بڑی وجہ او جی ڈی سی، اینگرو، پی پی ایل اور بین الفلاح کے حصص میں کمی تھی۔ ان اداروں کے سبب401 پوائنٹس کم ہوئے۔ اس کے برعکس، یو بی ایل، بینک الحبیب، لک، پی کے جی پی اور ڈی جی کے سی نے مل کر 347 پوائنٹس کا اضافہ کر کیا۔

بدھ کے روز پوسٹ بجٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے خبردار کیا کہ اگر ٹیکس نفاذ سے متعلق ضروری ترامیم اور قانون سازی پارلیمنٹ سے منظور نہ ہوئیں تو آئندہ مالی سال میں 500 ارب روپے تک کے اضافی محصولات کے اقدامات کیے جائیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بجٹ کے تمام اعداد و شمار آئی ایم ایف کے ساتھ فائنل ہو چکے ہیں۔

محمد اورنگزیب نے منگل کو مالی سال 26-2025 کا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا، جس کا کل حجم 17.573 ٹریلین روپے رکھا گیا ہے۔ حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے 4.2 فیصد جی ڈی پی گروتھ کا ہدف مقرر کیا ہے جو کہ رواں سال کے 2.7 فیصد کے مقابلے میں خاصا بلند ہے۔

بدھ کو بھی پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان برقرار رہا، جہاں مثبت بجٹ اعلانات اور سرمایہ کاروں کی بھرپور شرکت کی وجہ سے انڈیکس میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

گزشتہ روز کے ایس ای-100 انڈیکس 2,328 پوائنٹس (1.91 فیصد) اضافے کے ساتھ 124,352.68 پوائنٹس پر بند ہوا، جو کہ پچھلے سیشن کے 122,024.44 پوائنٹس سے خاصا بلند ہے۔

بین الاقوامی منڈیوں میں جمعرات کے روز امریکی افراطِ زر کی معتدل رپورٹ اور واشنگٹن و بیجنگ کے درمیان نازک تجارتی مفاہمت کے تناظر میں عالمی اسٹاکس اور ڈالر کی قدر میں کمی واقع ہوئی، جبکہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ٹیرف سے متعلق بے یقینی نے سرمایہ کاری کے رجحان کو متاثر کیا۔

اس ہفتے عالمی مالیاتی منڈیوں کی توجہ امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی مذاکرات پر مرکوز رہی، جو بالآخر ایک فریم ورک معاہدے پر منتج ہوئے۔ اس معاہدے کے تحت چین نایاب معدنیات کی برآمدات پر عائد پابندیاں ختم کرے گا اور چینی طلباء کو امریکی یونیورسٹیوں تک رسائی حاصل ہو گی۔

ایم ایس سی آئی کا ایشیا پیسفک کے جاپان کے سوا حصص کا سب سے بڑا انڈیکس جمعرات کے روز 0.3 فیصد نیچے رہا، حالانکہ بدھ کو اس نے تین سال کی بلند ترین سطح کو چھوا تھا۔ جاپان کا نکئی انڈیکس 0.7 فیصد کم ہوا، جبکہ امریکی اور یورپی اسٹاک فیوچرز میں بھی کمی دیکھی گئی۔

چین کے ’بلو چپ‘ اسٹاک انڈیکس میں بھی 0.37 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، جو پچھلے سیشن میں تین ہفتوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔ ہانگ کانگ کا ’ہینگ سینگ‘ انڈیکس بھی 0.74 فیصد نیچے آیا اور بدھ کے روز کی تین ماہ کی بلند ترین سطح سے نیچے آگیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر متوقع ٹیرف پالیسیوں نے اس سال عالمی منڈیوں میں شدید ہلچل مچائی، جس کے نتیجے میں سرمایہ کاروں نے امریکی اثاثوں — بالخصوص ڈالر — سے اپنا سرمایہ نکالنا شروع کر دیا، کیونکہ وہ مہنگائی اور اقتصادی سست روی سے پریشان تھے۔

دریں اثنا انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 0.07 فیصد کمی واقع ہوئی اور روپیہ 20 پیسے کمی کے بعد 282 روپے 67 پیسے پر بند ہوا۔

آل شیئر انڈیکس پر حجم 1,024.63 ملین تک کم ہو گیا، جو پچھلے روز 1,041.13 ملین تھا۔

شیئرز کی مالیت 50.54 ارب روپے تک بڑھ گئی، جبکہ پچھلے سیشن میں یہ 46.71 ارب روپے تھی۔

سوئی سدرن 55.90 ملین شیئرز کے ساتھ والیم لیڈر رہی۔ فوجی سیمنٹ 50.60 ملین کے ساتھ دوسرے ورلڈ کال ٹیلی کام 49.33 ملین شیئرز کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔

جمعرات کو 474 کمپنیوں کے شیئرز کا کاروبار ہوا جن میں سے 170 کے شیئرز میں اضافہ، 270 کے شیئرز میں کمی اور 34 کے شیئرز میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔

 ۔
۔

Comments

200 حروف