بجٹ معاشی حقیقتوں سے دور، بے روزگاری بڑھنے کا خدشہ ہے، تھنک ٹینک
- پالیسی ریسرچ اینڈ ایڈوائزری کونسل نے کراچی کے لیے ناکافی بجٹ مختص کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔
پالیسی ریسرچ اینڈ ایڈوائزری کونسل (پی آر اے سی) کے مطابق، وفاقی بجٹ اہم معاشی چیلنجز، خصوصاً صنعتی شعبے کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے، جو ملک میں بیروزگاری میں اضافے اور پاکستان کی پہلے سے کمزور معاشی صورتحال کو مزید عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے۔
منگل کے روز جاری کردہ ایک بیان میں پی آر اے سی کے چیئرمین محمد یونس ڈھاگہ نے بجٹ کی کچھ قابلِ تعریف اور مستقبل بین اقدامات کو سراہا، جن میں گرین سکوک کا اجرا شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام پائیدار ترقی کی جانب حکومت کے عزم اور ماحولیاتی تحفظ سے وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے پراپرٹی ٹرانزیکشنز پر وِد ہولڈنگ ٹیکس میں تمام ٹیکس سلیبز میں 1.5 فیصد کمی اور ٹرانسفرز پر 7 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے خاتمے کو بھی سراہا، جس سے ریئل اسٹیٹ اور تعمیراتی شعبے میں بہتری کی امید کی جا رہی ہے۔
انہوں نے تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس ریلیف کو بھی خوش آئند قرار دیا۔
تاہم، انہوں نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ کم از کم قابل ٹیکس آمدنی کی حد میں اضافہ نہ ہونے سے سب سے زیادہ متاثر اور بھاری ٹیکس ادا کرنے والے طبقات کو خاطر خواہ ریلیف نہیں ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ کی بنیاد غیر حقیقی آمدنی کے اہداف اور شرحِ نمو کے تخمینوں پر رکھی گئی ہے، جو معاشی حقیقتوں سے لاتعلقی کا مظہر ہے۔
یونس ڈھاگہ نے خبردار کیا کہ بجٹ میں مقرر کردہ اہداف موجودہ میکرو اکنامک حالات کو نظرانداز کرتے ہیں، جس سے ناقابل حصول توقعات جنم لے سکتی ہیں اور ملک کے مالیاتی مسائل مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہونے والی رقم پر بھی تشویش ہے، جو مالی سال 26-2025 میں کل جاری اخراجات کا 50.4 فیصد اور خالص وفاقی آمدن کا 74.1 فیصد ہڑپ کر جائے گی۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ صورتحال ترقیاتی اخراجات کے لیے دستیاب وسائل کو شدید حد تک محدود کر دیتی ہے۔ مزید کہا گیا کہ وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے بجٹ میں 29 فیصد کمی، یعنی 1,400 ارب روپے سے گھٹا کر 1,000 ارب روپے کرنا، اہم منصوبوں کو متاثر کرے گا، روزگار کے مواقع کم کرے گا، اور طویل مدتی ترقی کو نقصان پہنچائے گا۔
یونس ڈھاگہ نے کہا کہ ترقیاتی اخراجات میں اس قدر کٹوتی حکومت کی طویل المدتی معاشی ترقی اور استحکام کی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی فنڈنگ میں کمی براہِ راست انفراسٹرکچر، تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کی ضرورت سے متصادم ہے۔
پی آر اے سی نے صنعتی شعبے کو نظرانداز کیے جانے پر بھی تشویش ظاہر کی، جو مالی سال 2025 کی ابتدائی نو ماہ کے دوران 1.5 فیصد سکڑ چکا ہے۔
اسی طرح، خدمات کے شعبے میں تجارتی خسارے کے باوجود، بجٹ میں پاکستان کے ابھرتے ہوئے آئی ٹی سیکٹر کے لیے کوئی خصوصی مراعات نہیں دی گئیں، جو معیشت کو فروغ دینے کا ایک اہم ذریعہ ہو سکتا تھا۔
برآمدات پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی کا بھی فقدان رہا، جو زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور معیشت کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔
بیان میں کراچی کے لیے ناکافی فنڈز پر بھی تشویش ظاہر کی گئی، جو اس وقت دنیا کے بدترین رہائش کے قابل شہروں میں پانچویں نمبر پر آ چکا ہے۔
بیان کے مطابق، شہر کے جاری پانی کے بحران کو حل کرنے کے لیے اہم منصوبے “ کے فور“ کے لیے صرف 3.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جو ناکافی ہیں۔ مزید کہا گیا کہ 2020 میں اعلان کردہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے کئی اہم منصوبے اب تک نامکمل ہیں۔
یونس ڈھاگہ نے کہا کہ یہ ایک نادر موقع تھا کہ تعلیم، صحت، اور بنیادی ڈھانچے جیسے اہم شعبوں میں اصلاحات نافذ کی جاتیں، مگر افسوس کہ بجٹ ان شعبوں میں معنی خیز تبدیلیاں لانے سے قاصر رہا۔
پی آر اے سی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بجٹ پر نظرثانی کرے اور ایسے اقدامات متعارف کروائے جو پاکستان کی حقیقی معاشی صورتحال سے ہم آہنگ ہوں۔
بیان میں کہا گیا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ بجٹ میں پائیدار ترقی، مالیاتی نظم و ضبط، اور صنعت، ٹیکنالوجی، اور سماجی تحفظ جیسے اہم شعبوں کے لیے ہدفی حمایت کو یقینی بنایا جائے۔
Comments