وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں مالی سال 2025-26 کے لیے 17.573 کھرب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کیا جس میں مجموعی ریونیو وصولیوں کا تخمینہ 19.278 کھرب روپے لگایا گیا ہے، ان میں سے 8.206 کھرب روپے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت صوبوں کے حصے کے طور پر شامل ہیں۔

ایف بی آر کی جانب سے محصولات کا تخمینہ 14.131 کھرب روپے جبکہ نان ٹیکس آمدنی کا تخمینہ 5.147 کھرب روپے لگایا گیا ہے۔

اخراجات کے حوالے سے رواں مالی سال کے نظرثانی شدہ تخمینے 16.390 کھرب روپے کے مقابلے میں آئندہ مالی سال کے لیے موجودہ اخراجات کو نمایاں طور پر کم کرکے 16.286 کھرب روپے تک محدود کیا گیا ہے حالانکہ وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ کمی بنیادی طور پر سود کی ادائیگیوں میں نمایاں کمی کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے جو آئندہ مالی سال کے لیے 8.207 کھرب روپے کے تخمینے کے ساتھ گزشتہ سال کے 8.945 کھرب روپے کے مقابلے میں کم ہیں۔

پنشن کی ادائیگیوں میں 7 فیصد اضافے کے باوجود پنشن کے بجٹ میں معمولی سا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جو 1.014 ارب روپے سے بڑھ کر 1.055 ارب روپے ہو گیا ہے۔ یہ معمولی اضافہ پنشن اسکیم میں کی گئی ان تبدیلیوں کا نتیجہ ہے جو تاحال نافذ نہیں ہوئیں اور مجوزہ پنشن اصلاحات کا حصہ ہیں۔ اس لیے پنشن نظام کو پائیدار بنانے کے لیے ابھی ایک طویل راستہ طے کرنا باقی ہے۔

سبسڈیز میں بھی نمایاں کمی کی گئی ہے جو رواں مالی سال کے 1.378 ٹریلین روپے سے کم ہوکر آئندہ مالی سال میں 1.186 ٹریلین روپے مقرر کی گئی ہیں، اور یہ کمی آئی ایم ایف کے دباؤ کے باعث کی گئی ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ بجٹ دستاویزات میں آئندہ مالی سال کے دوران کسی بڑی نجکاری کی سرگرمی کی توقع نہیں کی گئی کیونکہ نجکاری سے حاصل ہونے والی آمدنی صرف 87 ارب روپے ظاہر کی گئی ہے۔

معاشی سرگرمیوں پر سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، ودہولڈنگ اور ایڈوانس ٹیکس کے ذریعے ٹیکس وصولی پر زور دینا وفاقی بجٹ کا مرکزی پہلو ہے۔ ریونیو میں ہونے والے نقصانات اور ٹیکس چوری کی روک تھام کے لیے ڈیجیٹائزیشن اور لین دین کی الیکٹرانک مانیٹرنگ و ٹریکنگ پر بھرپور توجہ دیے جانے کا امکان ہے۔

ٹیکس چوری کے بڑھتے ہوئے رجحان کی روک تھام کے لیے حکومت موجودہ قانونی شقوں کو مزید مؤثر اور سخت بنا رہی ہے تاکہ قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف مؤثر کارروائی کی جا سکے۔

اسی لیے تجویز کیا گیا ہے کہ اعانت کنندہ کی واضح قانونی تعریف متعارف کروائی جائے کیونکہ ایسے مالیاتی فراڈ اُن کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہوتے۔ معیشت کو دستاویزی بنانے اور غیر رجسٹرڈ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے سیلز ٹیکس ایکٹ میں ترمیم کی جا رہی ہے، جس کے تحت بینک اکاؤنٹس پر پابندی، کاروباری مراکز کی سیلنگ، جائیدادوں کی ضبطگی اور وصول کنندہ کی تقرری جیسے سخت اقدامات نافذ کیے جائیں گے تاکہ قانون کی عملداری یقینی بنائی جا سکے۔

سابقہ فاٹا اور پاٹا میں قائم صنعتی یونٹس کو مشینری کی سپلائی، درآمد اور خریداری پر دی گئی سیلز ٹیکس کی مکمل چھوٹ مرحلہ وار ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ آئندہ چار برس میں یہ ٹیکس بالترتیب 10، 12، 14 اور 16 فیصد کی شرح سے نافذ کیا جائے گا۔ یہ اقدام ممکنہ طور پر قبائلی علاقوں میں شدید ردعمل کو جنم دے سکتا ہے اور یہ وقت ہی بتائے گا کہ حکومت اپنے فیصلے پر قائم رہتی ہے یا دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔

بلا شبہ، چائے، لوہے اور اسٹیل جیسے شعبوں میں قائم صنعتی یونٹس کی جانب سے اس چھوٹ کے غلط استعمال نے ملک کے دیگر حصوں میں موجود صنعتوں کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

بینکوں یا قومی بچت اسکیموں میں بچت پر حاصل منافع پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے اور 50 لاکھ روپے تک کے منافع پر حتمی ٹیکس کی جو حد مقرر تھی، اسے افراد اور ایسوسی ایشن آف پرسنز کے لیے ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ یہ تجویز ایک ایسے ملک کے لیے غیر دانشمندانہ اور نقصان دہ ہے جہاں بچت کی شرح خطے میں سب سے کم ہے۔ یہ اقدام قومی بچت میں اضافے اور ترقیاتی اخراجات کے لیے قرضوں پر انحصار کم کرنے کی کوششوں کے منافی ہے۔

علاوہ ازیں، یہ تجویز اُن بزرگ شہریوں اور ریٹائرڈ افراد کی مشکلات کا ادراک کیے بغیر دی گئی ہے جو اپنی زندگی کی جمع پونجی پر حاصل ہونے والے منافع سے گزر بسر کرتے ہیں۔

ڈیوڈنڈ پر ٹیکس کی شرح بڑھا کر 25 فیصد کردی گئی ہے جب کہ میوچل فنڈز سے حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد مقرر کی گئی ہے۔ یہ اقدامات ممکنہ طور پر بچتوں اور سرمایہ کاری کا رخ رئیل اسٹیٹ، سونے اور دیگر اشیاء کی طرف موڑ سکتے ہیں۔

پورے بجٹ دستاویز میں ریٹیلرز اور ہول سیلرز کی آمدنی پر ٹیکس عائد نہ کیے جانے کی حیران کن غیر موجودگی واقعی ایک معمہ ہے۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ دانستہ حکمتِ عملی کے تحت کیا گیا ہے تاکہ طاقتور تاجر برادری کو ناراض نہ کیا جائے۔

بظاہر اس اقدام کے پیچھے یہ مفروضہ کارفرما ہے کہ سیلز ٹیکس کی وصولی کے لیے نئے نفاذی اقدامات خود بخود تاجروں کو دستاویزی معیشت کے ذریعے انکم ٹیکس کے دائرہ کار میں لے آئیں گے۔ تاہم، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ یہ حکمت عملی فیصل آباد اور لاہور جیسے بڑے تجارتی مراکز میں کس طرح اثر دکھاتی ہے ۔

وزیر خزانہ کی بارہا دعوؤں کے برعکس کہ یہ ایک ”دلیرانہ“ بجٹ ہوگا، پیش کردہ بجٹ زیادہ تر غیر مؤثر نظر آتا ہے۔ مقامی صنعت کو بلند درآمدی محصولات سے مرحلہ وار تحفظ ختم کرنے کے سوا، اس بجٹ میں نہ تو ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے، نہ ہی کارپوریٹ اور تنخواہ دار طبقے — جو پہلے ہی غیر متناسب ٹیکس بوجھ اٹھا رہے ہیں — کو کوئی نمایاں ریلیف دیا گیا ہے، حالانکہ یہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔

یہ افسوسناک امر ہے کہ حکومت نے ان دونوں طبقات — کارپوریٹ اور تنخواہ دار افراد — کو ان کی آمدنی پر عائد بھاری ٹیکسز سے کوئی حقیقی ریلیف فراہم نہیں کیا جو ایک سنجیدہ مالی بے حسی کی عکاسی کرتا ہے۔

درحقیقت حکومت نے ان طبقات پر بچتوں اور سرمایہ کاری کی آمدنی پر ٹیکس کا بوجھ مزید بڑھا دیا ہے۔ اس کے برعکس بجٹ کا مرکزی زور ٹیکس چوری کی روک تھام پر ہے، نہ کہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے پر۔ کیونکہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے سیاسی عزم اور جرأت درکار ہے تاکہ ان بااثر طبقوں اور مراعات یافتہ گروہوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جا سکے جو اب تک اپنی آمدنی پر ٹیکس دینے سے کامیابی سے بچتے آئے ہیں۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کی معیشت میں غیر رسمی شعبے کو کم کرنے کی ضرورت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے، اور اس حقیقت کی اہمیت کو کسی طور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025

Comments

200 حروف