بجٹ 2025-26 میں وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے 1,000 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جب کہ صوبائی سالانہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے 2,869 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ سرکاری ملکیتی اداروں کے لیے علیحدہ سے 355 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، جو گزشتہ مالی سال میں 196.839 ارب روپے تھی۔
مالی سال 2024-25 کے لیے بجٹ میں 1,400 ارب روپے مختص کیے گئے تھے جبکہ آئندہ مالی سال کے لیے اس میں کمی کرتے ہوئے 1,000 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو کہ 28.5 فیصد کی نمایاں کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ رواں سال مالی وسائل کی تنگی کے باعث حکومت نے اس رقم کو کم کر کے 1.1 ٹریلین روپے کردیا تھا۔
پی ایس ڈی پی کے تحت سب سے زیادہ رقم ٹرانسپورٹ کے شعبے کے لیے مختص کی گئی ہے، جو کہ 225 ارب روپے ہے۔ اس میں سڑکوں کے منصوبے — کوئٹہ-کراچی ڈوئلائزیشن، سکھر-حیدرآباد موٹروے، اور ایسٹ بے ایکسپریس وے — شامل ہیں، جن کی مجموعی لاگت 501 ارب روپے ہے۔ آبی وسائل کے لیے 184 ارب روپے رکھے گئے ہیں، حالانکہ پاکستان پانی کی قلت کا شکار ملک ہے، جبکہ ماحولیاتی تبدیلی جیسے سنگین مسئلے کے باوجود اس شعبے کے لیے صرف 5.26 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور ماحول دوست اقدامات کے تحت مختلف منصوبوں کے لیے بجٹ میں مخصوص رقوم مختص کی گئی ہیں، جن میں شہری سیلاب سے بچاؤ اور رقبہ جاتی منصوبہ بندی کے لیے 10 کروڑ 60 لاکھ روپے، گرین پاکستان منصوبے کے لیے 2.25 ارب روپے، ماحول دوست مہارتوں اور اختراعات کے فروغ کے لیے 45 کروڑ روپے جبکہ بایو سیفٹی اور ایس ڈی جی رپورٹنگ کے لیے 30 کروڑ روپے شامل ہیں۔
تین جاری بڑے آبی منصوبوں کے لیے بجٹ میں رقوم مختص کی گئی ہیں جن میں بھاشا ڈیم کے لیے 60 ارب روپے، داسو ڈیم کے لیے 20 ارب روپے اور مہمند ڈیم کے لیے 15 ارب روپے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کے۔فور الیکٹرک واٹر سپلائی منصوبے کے لیے 12 ارب روپے جب کہ دیہی علاقوں میں بجلی کی فراہمی اور سولرائزیشن کے لیے 10 ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے۔
ضم شدہ اضلاع کے لیے 70 ارب روپے جبکہ خصوصی علاقوں (آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان) کے لیے 74.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ صحت کی سہولیات، جو گزشتہ مالی سال میں مہنگائی کے شدید اثرات کی زد میں رہیں، کے لیے 24.7 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام کے شعبے—جو مستقبل میں زرمبادلہ کے بڑے ذرائع میں سے ایک بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں—کے لیے 23 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔
حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 61 ارب روپے، نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن کے اسکل پروگرام کے لیے 4.7 ارب روپے، پاکستان ایجوکیشن انڈاؤمنٹ فنڈ کے لیے 14 ارب روپے، اسلام آباد میں کینسر اسپتال کے لیے 5 ارب روپے اور ہیپاٹائٹس و ذیابیطس پر قابو پانے کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
پی ایس ڈی پی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ”اُڑان پاکستان“ مستقبل کا ایک وژن ہے، جو ہمارا عہد ہے—جس میں نہ کوئی علاقہ نظر انداز ہوگا، نہ کوئی شہری فراموش کیا جائے گا، اور نہ ہی کسی صلاحیت کو ضائع ہونے دیا جائے گا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025
Comments