پاکستان کا زرعی شعبہ رواں مالی سال کے لیے مقررہ شرحِ نمو کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا اور اقتصادی سروے 2024-25 کے مطابق اس کی شرحِ نمو محض 0.56 فیصد رہی جو مقررہ دو فیصد کے ہدف سے کہیں کم ہے۔
سروے کے مطابق مالی سال 2024-25 کے دوران زرعی شعبے کی مایوس کن کارکردگی کی بڑی وجہ اہم فصلوں کی پیداوار میں نمایاں کمی رہی جن میں گندم کی پیداوار میں 8.9 فیصد، کپاس میں 30.7 فیصد، گنے میں 3.9 فیصد اور مکئی کی پیداوار میں 15.4 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
سروے میں مزید بتایا گیا کہ زرعی شعبے کی مجموعی نمو میں بنیادی کردار لائیو اسٹاک کے 4.72 فیصد، ماہی گیری کے شعبے کے 1.42 فیصد اور جنگلات کے شعبے کے 3.03 فیصد اضافہ نے ادا کیا۔
سروے کے مطابق زرعی شعبے کی مجموعی مالیت میں اہم فصلوں کا حصہ 17.82 فیصد رہا جب کہ ان کا جی ڈی پی میں حصہ 4.19 فیصد رہا۔ دوسری جانب دیگر فصلوں نے زرعی مالیت میں 13.88 فیصد اور مجموعی قومی پیداوار میں 3.27 فیصد حصہ ڈالا۔
مالی سال 2024-25 کے دوران گندم کی کل تخمینی پیداوار 2 کروڑ 89 لاکھ 80 ہزار ٹن رہی جو گزشتہ سال کی ریکارڈ سطح یعنی 3 کروڑ 18 لاکھ 10 ہزار ٹن کے مقابلے میں 8.9 فیصد کم ہے۔ پیداوار میں اس کمی کی بنیادی وجوہات زیر کاشت رقبے میں 6.5 فیصد کمی (جو گھٹ کر 91 لاکھ ہیکٹر رہ گئی) اور بوائی کے موسم میں درجہ حرارت کا غیر معمولی طور پر زیادہ ہونا رہیں۔
اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کا کپاس کا شعبہ اپنی کارکردگی برقرار رکھنے میں ناکام رہا، جس کی وجوہات مون سون کے دوران معمول سے زیادہ بارشیں، تاخیر سے کاشت اور زیرِ کاشت رقبے میں کمی رہی۔ کپاس کی کاشت کا رقبہ گزشتہ سال کے 24 لاکھ ہیکٹر کے مقابلے میں گھٹ کر 20 لاکھ 40 ہزار ہیکٹر رہ گیا، جو 15.7 فیصد کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
سروے میں بتایا گیا کہ کپاس کی پیداوار 10.22 ملین گانٹھوں سے کم ہو کر 7.08 ملین گانٹھوں تک آ گئی، جس سے 30.7 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ یہ کمی گزشتہ سال ہونے والی بحالی کے بعد ایک بار پھر رجعت کا اشارہ دیتی ہے۔
مالی سال 2024-25 کے دوران پاکستان میں گنے کی کاشت 11 لاکھ 90 ہزار ہیکٹر رقبے پر کی گئی، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 1.1 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہے۔ تاہم رقبے میں معمولی اضافے کے باوجود گنے کی پیداوار میں 3.88 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، جو گھٹ کر 8 کروڑ 42 لاکھ 40 ہزار ٹن رہی۔ اس کمی کی بنیادی وجوہات کم بارش اور بلند درجہ حرارت رہیں۔
سروے کے مطابق چاول کی پیداوار میں بھی کمی دیکھی گئی، حالانکہ زیرِ کاشت رقبے میں اضافہ ہوا۔ چاول کی کاشت کا رقبہ 7.2 فیصد اضافے کے ساتھ بڑھ کر 39 لاکھ ہیکٹر ہو گیا، تاہم رقبے میں اس اضافے کے باوجود پیداوار 1.38 فیصد کمی کے ساتھ گھٹ کر 97 لاکھ 20 ہزار ٹن رہی۔
سروے میں بتایا گیا کہ مالی سال 2024-25 کے دوران مکئی کی فصل 14 لاکھ 40 ہزار ہیکٹر رقبے پر کاشت کی گئی۔ مکئی کی پیداوار کا تخمینہ 82 لاکھ 40 ہزار ٹن لگایا گیا ہے، جو گزشتہ سال کی 97 لاکھ 40 ہزار ٹن پیداوار کے مقابلے میں 15.4 فیصد کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کمی کی بنیادی وجہ زیرِ کاشت رقبے میں کمی رہی۔
سروے کے مطابق مالی سال 2024-25 کے دوران خریف اور ربیع کی دیگر فصلوں کے زیرِ کاشت رقبے اور پیداوار میں ملا جلا رجحان دیکھنے میں آیا۔ باجرہ اور چنے کی پیداوار میں بالترتیب 14.3 فیصد اور 16.3 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ جوار اور مونگ کی پیداوار میں بھی بالترتیب 2.6 فیصد اور 14.4 فیصد کمی آئی، جس کی بنیادی وجہ زیرِ کاشت رقبے میں کمی رہی۔ تاہم ماش، پیاز اور آلو کی پیداوار میں بالترتیب 4.7 فیصد، 15.9 فیصد اور 11.5 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
سروے کے مطابق لائیو اسٹاک کے شعبے نے 4.72 فیصد نمو حاصل کی۔ یہ شعبہ زرعی شعبے کی مجموعی مالیت میں 63.6 فیصد حصہ ڈالتا ہے اور مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں اس کا حصہ 14.97 فیصد ہے۔ سروے میں بتایا گیا کہ لائیو اسٹاک شعبہ تقریباً 2.9 فیصد برآمدات میں حصہ دار ہے۔
سروے کے مطابق ملک میں گائے اور بھینسوں کی تعداد بالترتیب 5 کروڑ 97 لاکھ اور 4 کروڑ 77 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح بکریوں اور بھیڑوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے کیونکہ یہ چھوٹے جانور محدود پانی والے علاقوں اور چھوٹے کاشتکاروں کے لیے زیادہ موزوں سمجھے جاتے ہیں۔
سروے کے مطابق پاکستان کی مجموعی دودھ کی پیداوار 7 کروڑ 23 لاکھ 40 ہزار ٹن رہی، جس میں سالانہ بنیاد پر 3.2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس اضافہ کی وجہ بہتر فی جانور پیداوار اور لائیو اسٹاک کی تعداد میں اضافہ ہے۔ سروے کے مطابق بھینس کا دودھ بدستور سب سے بڑا حصہ دار ہے، جس کی پیداوار 4 کروڑ 31 لاکھ 30 ہزار ٹن رہی جبکہ گائے کے دودھ کی پیداوار 2 کروڑ 70 لاکھ 80 ہزار ٹن ریکارڈ کی گئی۔
اقتصادی سروے 2024-25 کے مطابق گوشت کے شعبے میں مجموعی پیداوار 59 لاکھ 70 ہزار ٹن رہی، جس میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 2.7 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس اضافے کا بڑا سبب مرغی کے گوشت کی نمایاں نمو رہی جس میں 9.4 فیصد اضافہ ہوا اور پیداوار بڑھ کر 25 لاکھ 80 ہزار ٹن تک پہنچ گئی۔ اس کی وجہ جدید پیداوار کے طریقوں کا استعمال اور صارفین کی بڑھتی ہوئی ترجیح رہی۔ بیف اور مٹن کی پیداوار بالترتیب 25 لاکھ 50 ہزار ٹن اور 8 لاکھ 40 ہزار ٹن رہی، جہاں معمولی مگر مستحکم اضافہ دیکھا گیا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025
Comments