پاکستان کے زرعی شعبے کی شرحِ نمو مالی سال 25-2024 میں محض 0.56 فیصد رہنے کی توقع ہے، جو مالی سال 24-2023 میں 6.40 فیصد تھی۔ مالی سال 25 کی اقتصادی جائزہ رپورٹ کے عبوری اعداد و شمار کے مطابق، یہ گزشتہ 9 برسوں کی کم ترین شرح نمو ہے۔

ٹاپ لائن ریسرچ کے مطابق زرعی شعبہ گزشتہ 9 سال میں کم ترین شرح نمو 0.56 فیصد پر رہے گا (جبکہ مالی سال 16 میں یہ 0.41 فیصد تھی)، جبکہ گزشتہ 5 سال کی اوسط شرح 3.38 فیصد رہی ہے۔

کم شرح نمو کی اہم وجوہات میں اہم فصلوں اور کپاس کی جِننگ کی پیداوار میں بالترتیب 13.5 فیصد اور 19.0 فیصد کی کمی شامل ہے۔

 ۔
۔

اگرچہ دیگر فصلوں میں 4.78 فیصد، لائیو اسٹاک میں 4.72 فیصد، جنگلات میں 3.03 فیصد اور ماہی گیری میں 1.2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، تاہم اہم فصلیں اور کپاس بالترتیب 13.49 فیصد اور 19.03 فیصد کمی کا شکار ہوئیں۔

رپورٹ کے مطابق فصلوں کے ذیلی شعبے میں منفی شرح نمو کی بڑی وجہ موسمیاتی چیلنجز رہے۔

زرعی شعبے نے مالی سال 25 میں ملا جلا رجحان دکھایا — کچھ ذیلی شعبوں میں مشکلات دیکھی گئی، تو کچھ میں چیلنجز نمایاں رہے۔ یہ رجحان اس شعبے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، جبکہ ماڈرنائزیشن، موسمیاتی موافقت، علم و تربیت، اور پیداوار میں بہتری کی فوری ضرورت کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔

 ۔
۔

خریف 2024 کے موسم میں پانی کی دستیابی 60.5 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) رہی، جو خریف 2023 اور اوسط نظام کے استعمال سے کم تھی۔ ربیع 25-2024 میں پانی کی دستیابی 29.4 ایم اے ایف ریکارڈ کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق، ربیع میں بارشیں کم ہوئیں جبکہ خریف میں اوسط سے زیادہ ہوئیں۔

رپورٹ میں جنوبی ایشیا میں زرعی رجحانات کا بھی ذکر کیا گیا، کہ اگرچہ ماحولیاتی حالات مشترک ہیں، مگر مختلف ملکوں میں فصلوں کی ترجیحات مختلف ہیں، جن پر پالیسیوں، منڈی کی ضروریات، اور قدرتی وسائل کا اثر ہوتا ہے۔

کپاس کی جِننگ کا شعبہ گزشتہ چھ برسوں سے اتار چڑھاؤ کا شکار ہے۔ مالی سال 25 میں اس میں 19.03 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی، جبکہ گزشتہ سال 47.23 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس گراوٹ کی وجوہات میں ساختی مسائل، خراب موسمی حالات، اور کیڑوں کا حملہ شامل ہیں۔

حکومت اس شعبے کی بحالی کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے، جس میں آبپاشی کے نظام میں بہتری، بیج کے شعبے میں اصلاحات، ڈیجیٹل زراعت کے فروغ، اور تحقیق و توسیع خدمات کو مضبوط بنانا شامل ہے۔

یہ اقدامات نہ صرف قلیل مدتی استحکام کے لیے ضروری ہیں بلکہ ایک خود کفیل، مضبوط زرعی معیشت کے لیے بھی اہم ہیں جو شمولیتی معاشی ترقی اور دیہی تبدیلی کو آگے بڑھا سکے۔

گزشتہ ہفتے پاکستان کسان اتحاد کونسل کے صدر خالد محمود خاں نے کہا کہ مالی سال 25-2024 میں زرعی شعبے کو شدید نقصان پہنچا، صرف گندم میں کسانوں کو تقریباً 2,200 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، جو مالی سال 24 میں کاشتکاری شعبے کی مجموعی ملکی پیداوار میں 23.15 فیصد حصہ رکھتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس نقصان نے کاشتکاروں کی قوت خریداری کو شدید متاثر کیا ہے اور دیگر فصلوں کی پیداوار پر بھی منفی اثر ڈالا ہے۔

کسان اتحاد نے حکومت کو آنے والے بجٹ میں زرعی ان پٹ پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) عائد نہ کرنے کی وارننگ دی ہے، بصورت دیگر یہ اقدام پہلے سے دباؤ کا شکار زرعی معیشت کے لیے آخری ضرب ثابت ہو گا۔

Comments

200 حروف