سابق وزیرِ خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ہفتے کے روز بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ دُہرائے جانے والے بہانوں سے آگے بڑھے اور پاکستان کے ساتھ بامعنی مذاکرات کا آغاز کرے تاکہ دیرینہ دو طرفہ مسائل کو حل کیا جا سکے۔
واشنگٹن میں امریکی قانون سازوں، پالیسی ماہرین اور تھنک ٹینکس سے ملاقاتوں کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے نئی دہلی کے مذاکرات سے گریز کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ طرزِ عمل خطے میں امن کے لیے نقصان دہ ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بھارت مسلسل مذاکرات اور تحقیقات کی کوششوں سے راہِ فرار اختیار کرتا رہا ہے۔
بہانے مختلف ہو سکتے ہیں، کبھی سویلین و ملٹری تعلقات، کبھی جغرافیائی سیاست، تو کبھی مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے والے عمومی بیانیے، لیکن ان سب کا مقصد ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے اور وہ ہے بامقصد مذاکرات سے گریز۔
بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دو ہمسایہ ممالک، جن کے درمیان کشیدگی کی حد انتہائی نازک ہو، کے لیے یہ صورتِ حال قابلِ برداشت نہیں کہ کوئی منظم تنازع حل کرنے کا طریقۂ کار ہی موجود نہ ہو۔
سابق وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری ان دنوں ایک اعلیٰ سطح کے پاکستانی وفد کے ساتھ مغربی ممالک کے اہم دارالحکومتوں کے دورے پر ہیں، جس کا مقصد حالیہ پاکستان بھارت کشیدگی کے تناظر میں اسلام آباد کا موقف عالمی برادری کے سامنے موثر انداز میں پیش کرنا ہے۔
یہ وفد آئندہ دنوں میں لندن اور برسلز کا بھی دورہ کرے گا۔ وفد میں سینیئر سیاسی رہنما اور سابق سفارتکار شامل ہیں، جن میں سابق وزرائے خارجہ حنا ربانی کھر اور خرم دستگیر خان، سینیٹرز شیری رحمان، مصدق ملک، فیصل سبزواری، بشریٰ انجم بٹ، تجربہ کار سفارتکار جلیل عباس جیلانی اور تہمینہ جنجوعہ شامل ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے اس موقع پر زور دیا کہ پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت دہشت گردی کے خلاف یکساں موقف رکھتی ہے اور بھارت کے ساتھ بامقصد مکالمہ خطے کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سیاسی اور عسکری دونوں سطحوں پر مذاکرات کے لیے آمادہ ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ اگر بھارت واقعی امن چاہتا ہے تو اُسے بات چیت کے لیے تیار ہونا چاہیے، چاہے یہ براہِ راست ہو یا بین الاقوامی ثالثوں کے ذریعے۔
بلاول بھٹو زرداری نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے نئی دہلی نے تمام ممکنہ راستے مسترد کر دیے ہیں، چاہے وہ اقوامِ متحدہ کے ذریعے بات چیت ہو، کسی تیسرے فریق کی ثالثی ہو یا دوطرفہ سفارت کاری۔
انہوں نے مزید زور دیا کہ وہ اقدامات جو کشیدگی میں اضافہ کا سبب بنے، اُنہیں واپس لینا ایک تعمیری قدم ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ تمام فریقین، بشمول خود بھارت، کے مفاد میں ہے کہ وہ ان پالیسیوں پر نظرِثانی کرے جن کا نتیجہ صرف سفارتی جمود اور بڑھتی ہوئی دشمنی کی صورت میں نکلا ہے۔
واشنگٹن میں پاکستانی وفد کی سفارتی سرگرمیوں کو بھارت کے پھیلتے ہوئے سفارتی اثر و رسوخ اور بیانیے، خصوصاً مغربی دارالحکومتوں میں، کے مقابلے کی ایک جامع کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
Comments