پاکستان

مالی سال 25 کیلئے شرح نمو کی پیش گوئی برقرار ہے، اسٹیٹ بینک

  • مجموعی معاشی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے، جو معاشی اشاریوں میں بہتری، مالی حالات میں نرمی اور بیرونی توازن کے استحکام سے تقویت پا رہی ہے، رپورٹ
شائع April 29, 2025

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پیر کے روز کہا کہ مالی سال 2025 کے دوران پاکستان کی مجموعی معاشی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے، جو معاشی اشاریوں میں بہتری، مالی حالات میں نرمی اور بیرونی توازن کے استحکام سے تقویت پا رہی ہے۔ ان پیش رفتوں کے ساتھ، مالی سال 2025 کے لیے حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ 2.5 سے 3.5 فیصد کے درمیان برقرار رکھا گیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے پیر کو جاری کردہ ”پاکستان کی معاشی صورتحال، مالی سال 2025 کی ششماہی رپورٹ“ کے مطابق، ملک کی معاشی پیش رفت کا انحصار عالمی معاشی اور سیاسی حالات پر ہے، جس میں تین بڑے خطرات شامل ہیں: بڑھتی ہوئی تجارتی پابندیاں جو برآمدات، ترسیلات زر اور اشیائے صرف کی قیمتوں کو متاثر کر سکتی ہیں؛ جغرافیائی سیاسی تنازعات کے اثرات؛ اور ٹیرف اور سپلائی چین میں رکاوٹوں کے باعث عالمی افراط زر کا دوبارہ ابھرنا، جو ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے مالی حالات کو سخت کر سکتا ہے۔

تاہم، اسٹیٹ بینک نے کہا کہ شرح نمو کے لیے خطرات تاحال منفی پہلو کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ اگرچہ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی کم قیمتیں ایک مثبت عنصر بن سکتی ہیں، تاہم اضافی مالیاتی استحکام کے اقدامات اور گندم کی پیداوار توقع سے کم رہنے کی صورت میں شرح نمو پر دباؤ پڑ سکتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “مالی سال 2025 کے آغاز کے مقابلے میں اب معاشی نتائج اور پیش رفت نے مجموعی منظرنامے کو نمایاں طور پر بہتر کیا ہے۔ اگرچہ مالی سال 2025 کی پہلی ششماہی میں ترقی گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں سست رہی، تاہم حالیہ عرصے میں دستیاب قلیل مدتی اشاریوں کے اعدادوشمار معاشی سرگرمیوں میں بہتری کا اشارہ دے رہے ہیں۔

مزدوروں کی ترسیلات زر میں توقع سے زیادہ اضافہ، اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی، اور برآمدات کی مستحکم رفتار کے باعث، اسٹیٹ بینک نے مالی سال 2025 کے لیے کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے منفی 0.5 سے 0.5 فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ یہ پیش رفت مالیاتی بہاؤ میں کمی کے اثرات سے بچاؤ کے لیے ایک حفاظتی کشن فراہم کرے گی اور زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرے گی۔

رپورٹ کے مطابق مالی سال 2025 کی پہلی ششماہی میں مالیاتی خسارے میں بہتری بڑی حد تک اسٹیٹ بینک کے منافع کی منتقلی اور سبسڈی کی کم فراہمی کے باعث ہوئی۔ اسی بنا پر مالی سال 2025 کے لیے مالیاتی خسارے کی پیش گوئی 5.5 سے 6.5 فیصد کے درمیان برقرار رکھی گئی ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر ٹیکس آمدن میں مزید کمی واقع ہوئی تو یہ ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ مالیاتی استحکام، سخت مانیٹری پالیسی، خوراک پر مبنی اجناس کے کافی ذخائر، اور عالمی اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی کے باعث مالی سال 2025 کے بقیہ عرصے میں افراط زر پر دباؤ کم رہنے کی توقع ہے۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق، مہنگائی میں تیزی سے کمی کے رجحان اور خوراک و توانائی کی قیمتوں میں حالیہ اندرون و بیرون ملک کمی کے پیش نظر، مالی سال 2025 کے لیے اوسط افراط زر کا تخمینہ نمایاں طور پر کم کر کے 5.5 سے 7.5 فیصد کر دیا گیا ہے، جو پہلے 11.5 سے 13.5 فیصد کے درمیان تھا۔ تاہم، رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مالی سال 2025 کے آخری مہینوں میں بلند بنیاد کے اثرات کے خاتمے کے باعث افراط زر میں معمولی اضافہ ممکن ہے۔

اسی طرح، حالیہ مہینوں میں آٹوموبائلز، سیمنٹ اور پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جبکہ اعلیٰ مالیت والی ٹیکسٹائل برآمدات کا رجحان بھی مثبت ہے۔ مالیاتی حالات میں بہتری اور عالمی توانائی کی قیمتوں میں کمی جیسے عوامل صنعتی اور خدمات کے شعبوں کو بتدریج سہارا دینے کی توقع ہے۔ تاہم، زرعی شعبے کی نمو کمزور ہے، اور تازہ ترین اندازوں کے مطابق گندم کی پیداوار توقع سے کم رہی ہے۔ اس کے باوجود، بڑی صنعتوں میں سرگرمیوں کے ساتھ درآمدات میں اضافے کے رجحان کے پیش نظر، عالمی اشیائے صرف کی قیمتوں میں کسی بھی قسم کے جھٹکے کا خطرہ موجود ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2025 میں افراط زر کی شرح نظرثانی شدہ حد کے نچلے سرے کے قریب مستحکم رہنے کی توقع ہے، تاہم وسط مدتی تناظر میں کئی خطرات بھی موجود ہیں۔ ان میں عالمی تجارتی رکاوٹیں، اشیائے صرف کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، توانائی کی قیمتوں میں حکومتی ایڈجسٹمنٹ کے وقت اور نوعیت، نئے محصولات اقدامات، اور بین الاقوامی کرنسیوں کی حرکت کے باعث مقامی کرنسی پر دباؤ شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی مجموعی معاشی صورتحال کا انحصار عالمی معاشی اور سیاسی منظرنامے پر ہے۔ اس حوالے سے تین اہم خطرات موجود ہیں:

پہلا خطرہ بڑھتی ہوئی تجارتی پابندیوں کا ہے، جن کا اثر پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہو چکا ہے۔ یہ ٹیرف جغرافیائی سیاسی حریفوں اور اہم تجارتی شراکت داروں کو متاثر کر رہے ہیں، جس سے تجارت اور معاشی سرگرمیوں میں خلل پڑ سکتا ہے، اور ابھرتی معیشتوں کی برآمدات، ترسیلات زر اور اشیائے صرف کی قیمتوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

دوسرا خطرہ جاری جغرافیائی سیاسی تنازعات کے عالمی معیشت اور بالخصوص اشیائے صرف کی قیمتوں پر ممکنہ اثرات کا ہے۔

تیسرا خطرہ عالمی سطح پر افراط زر کے دوبارہ ابھرنے کا ہے، جو تجارتی ٹیرف اور ممکنہ سپلائی چین کی رکاوٹوں کے باعث ہو سکتا ہے، اور اس کے نتیجے میں عالمی مالیاتی حالات سخت ہو سکتے ہیں، جو ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف