سندھ میں جاری احتجاج اور سڑکوں کی بندش کے باعث کراچی سے اندرونِ ملک علاقوں کو ایندھن کی فراہمی مکمل طور پر رک گئی ہے، جس سے پورے نقل و حمل کے نظام بشمول پٹرولیم مصنوعات پر شدید اثر پڑا ہے۔
یہ رکاوٹ ایک ہفتے طویل دھرنے کی وجہ سے ہے، جو وکلا اور سیاسی کارکنوں نے سندھ کے دریائے سندھ پر چھ متنازعہ نہروں کی تعمیر کے خلاف احتجاج کے طور پر دیا ہے۔
سکھر اور خیرپور کے درمیان بابرلو بائی پاس پر ہونے والے احتجاج نے دو صوبوں یعنی سندھ اور پنجاب کے درمیان نقل و حمل کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے۔
کوئی محفوظ متبادل راستے نہ ہونے کے باعث سیکڑوں ٹینکر کی روانگی روک دی گئی ہے جس سے نہ صرف سندھ بلکہ ملک کے شمالی حصوں میں ایندھن کی کمی کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔
آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل (او سی اے سی) نے صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سندھ کے چیف سیکریٹری کو خط لکھ کر فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔ سندھ میں سڑکوں کی بندش کے باعث آئل ٹینکرز کی بحفاظت اور بلا تعطل روانگی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے
خط میں کہا گیا ہے کہ صنعت کے ممبروں سے ملنے والی معلومات کے مطابق، تقریبا 800 ٹینک لاریاں اس وقت راستے میں پھنسی ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے ایندھن کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنانے کی صنعت کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل نے خبردار کیا ہے کہ سڑکوں کی بندش کے باعث 800 سے زائد آئل ٹینکرز مختلف مقامات پر پھنس چکے ہیں، جس سے پٹرول اور ڈیزل کی ترسیل شدید متاثر ہو رہی ہے۔
او سی اے سی نے مزید کہا کہ اگرچہ ایندھن کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں، لیکن سڑکوں کی بندش اور محفوظ متبادل راستوں کی کمی کے باعث ترسیلات میں شدید تاخیر ہو رہی ہے، جس کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں ایندھن کی کمی کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔
او سی اے ایس نے سندھ حکومت سے فوری مداخلت کی درخواست کی ہے تاکہ مقامی انتظامیہ کو شامل کیا جائے اور آئل ٹینکرز کی سندھ بھر میں سیکیورٹی اور محفوظ گزرگاہ کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہدایات جاری کی جائیں۔
یہ خط جو او سی اے سی کے سیکریٹری سید نذیر عباس زیدی کی جانب سے لکھا گیا ہے، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین اور وزارت توانائی (پٹرولیم ڈویژن) کے ڈائریکٹر جنرل آئل کو فوری توجہ کے لیے بھی بھیجا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر فوری صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو ملک بھر میں ایندھن کی شدید قلت پیدا ہونے کا اندیشہ ہےجو نہ صرف ٹرانسپورٹ سیکٹر بلکہ زراعت، توانائی اور صنعتوں کو بھی بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments