اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کا کہنا ہے کہ 31 مارچ کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد پاکستان نے گزشتہ ہفتے 8 ہزار سے زائد افغان شہریوں کو ملک بدر کیا ہے۔
اسلام آباد کی جانب سے ان تمام افغان شہریوں جن کے پاس رہنے کے لیے کوئی قانونی دستاویزات نہیں ہیں یا جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ ز ہیں انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ وہ وطن واپس جائیں یا ملک بدری کا سامنا کریں۔
حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے مختلف شہروں میں عارضی مراکز قائم کیے ہیں تاکہ افغان شہریوں کو شمال مغربی پاکستان میں طورخم بارڈر کراسنگ پر منتقل کرنے سے پہلے یہاں رہائش یا پناہ مہیا کی جا سکے۔
یو این ایچ سی آر نے ایک واٹس ایپ پیغام میں کہا کہ یکم اپریل سے اب تک کم از کم 8,906 افغان شہریوں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔
اسلام آباد کا کہنا ہے کہ یہ مہم 2023 کے اواخر میں شروع کیے گئے غیر قانونی غیر ملکیوں کی وطن واپسی کے منصوبے کے نام سے ایک مہم کا حصہ ہے۔
پاکستان ماضی میں عسکریت پسندوں کے حملوں اور جرائم کا الزام افغان شہریوں پر عائد کرتا رہا ہے، جو ملک میں تارکین وطن کی سب سے بڑی تعداد ہیں۔ افغانستان نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
کابل نے ان کی وطن واپسی کو جبری جلاوطنی قرار دیا ہے۔
افغان وزارت مہاجرت اور وطن واپسی کے ترجمان عبدالمطلب حقانی نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان مہاجرین کی جبری ملک بدری اور یہ یکطرفہ اقدام تمام بین الاقوامی، اسلامی اور ہمسایہ اصولوں کے خلاف ہے۔
انہوں نے کہا، “چونکہ یہ معاملہ دونوں ممالک سے متعلق ہے، لہذا یہ ضروری ہے کہ افغانوں کی باعزت وطن واپسی کو یقینی بنانے کے لئے باہمی طور پر متفقہ طریقہ کار پر کام کیا جائے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ ان 40 لاکھ افغانوں کی وطن واپسی کی مہم کو تیز کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جنہوں نے اپنے آبائی ملک میں 40 سالہ مسلح تنازع کے دوران اور 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سرحد پار کی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
افغانستان ہیومن رائٹس واچ کی فرشتہ عباسی نے کہا، “پاکستان لوگوں کو وہاں واپس نہ بھیجنے کے اپنے بین الاقوامی عزم کو ترک کر رہا ہے جہاں ان کے حقوق خطرے میں ہیں۔
افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے تمام ممالک کو یہ موقف برقرار رکھنا چاہیے کہ افغانستان واپسی کے لیے غیر محفوظ ہے۔
Comments