بالآخر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے چولستان کے علاقے کو سیراب کرنے والے متنازعہ نہری منصوبے پر بات چیت شروع کرنے پر اتفاق کرلیا ہے، جس کے بعد ایک ایسے مسئلے کے خوشگوار حل کی نئی امید پیدا ہوئی ہے جو حالیہ برسوں میں بین الصوبائی ہم آہنگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن کر سامنے آیا ہے۔
اس منصوبے نے نہ صرف پیپلزپارٹی کو مخلوط حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دینے پر مجبور کیا ہے بلکہ سندھ بھر میں احتجاج اور شٹر ڈاؤن ہڑتالوں کو بھی جنم دیا ہے جہاں یہ خدشات تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ اگر یہ منصوبہ آگے بڑھا تو صوبے کے پانی کے حقوق سلب کر لیے جائیں گے۔
لہٰذا یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ دونوں جانب کے سینئر نمائندوں نے اس معاملے پر بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نواز شریف کی جانب سے مسئلہ حل کرنے کے لیے مذاکرات کی اپیل کے بعد، مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ نے 20 اپریل کو پیپلز پارٹی کے شرجیل انعام میمن سے رابطہ کیا اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ وفاقی حکومت نہری منصوبے سے متعلق سندھ کے تحفظات پر بات کرنے کے لیے تیار ہے۔
پیپلز پارٹی نے اپنی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے رابطے کا خیرمقدم کیا ہے، اگرچہ وہ اپنے اصل مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹی، جس میں اس منصوبے کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تاہم، دونوں فریقوں کی مذاکرات کی آمادگی اس بات کی علامت ہے کہ وہ اس انتہائی متنازعہ معاملے کو حل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ نہری منصوبہ گرین پاکستان انیشیٹو کا حصہ ہے جس کا مقصد ملک میں زرعی انقلاب لانا ہے۔ اس کا ہدف کسانوں کو نہ صرف اعلیٰ معیار کے بیج، کھاد اور زرعی ادویات فراہم کرنا ہے بلکہ جدید زرعی مشینری اور ٹیکنالوجی بھی ان کی دسترس میں لانا ہے۔ اس کے علاوہ، اس منصوبے کے تحت دریائے سندھ پر چھ نہروں کا جال بچھا کر بنجر چولستان کے علاقے کو سیراب کیا جائے گا۔
یہ انیشیٹو پاکستان میں زرعی طریقوں کو بنیادی طور پر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو جدید طریقہ کار کو فروغ دے کر ملک کو پائیدار غذائی تحفظ کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے۔
ایسے اہم منصوبے کی غیر معمولی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ابتدا میں ہی زیادہ لچکدار رویہ کیوں نہیں اپنایا۔ ایسے حساس معاملات — جیسے کہ صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم اور وسائل کی منصفانہ تقسیم — پر بات چیت میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے تھی، کیونکہ طویل خاموشی نے صرف بے چینی کو ہوا دی ہے اور صوبوں کے درمیان بداعتمادی میں مزید اضافہ کیا ہے۔
جو معاملہ بروقت مذاکرات سے حل ہوسکتا تھا، وہ اب ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے، جسے ہر جانب سے اشتعال انگیز بیانات نے مزید بگاڑ دیا ہے۔ واقعی امید کی جاسکتی ہے کہ تمام تر عوامی بیانات کے باوجود، دونوں فریق مذاکرات میں باہمی مفاہمت اور اتفاق رائے کی نیت سے شریک ہوں گے۔
یہ بات اجاگر کرنا بھی نہایت ضروری ہے کہ آئین وفاقی اکائیوں کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے ایک واضح طریقہ کار فراہم کرتا ہے، یعنی مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے ذریعے، جو کہ بین الصوبائی اور مرکز و صوبوں کے معاملات سے متعلق پالیسیوں کی تشکیل اور نگرانی کی اعلیٰ ترین آئینی اتھارٹی ہے، مگر بدقسمتی سے اسے اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کو ایک ایسے ادارے کے طور پر تصور کیا گیا تھا جو پالیسی اختلافات کو حل کرنے کے ذریعے وفاقی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے کام کرے اور جس کے اجلاس ہر 90 دن بعد منعقد کرنا آئینی طور پر لازم ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ مسلسل آنے والی حکومتوں نے اس ادارے کو وہ اہمیت نہیں دی جس کا یہ مستحق ہے، اور بار بار آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کے اجلاس منعقد کرنے میں کوتاہی برتی ہے۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک کوئی بھی سی سی آئی اجلاس نہیں بلایا گیا۔
لہٰذا اگرچہ دونوں اتحادی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کا انعقاد نہایت ضروری ہے، یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی اہمیت کو سمجھیں گی کیونکہ بین الصوبائی تنازعات کے حل میں اس کے فیصلوں کی آئینی حیثیت انہیں زیادہ قانونی جواز فراہم کرتی ہے اور یہ زیادہ دیرپا نتائج حاصل کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ آخرکار دونوں فریقوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے: ایسا حل جو وفاق کے مفاد میں ہو، ضروری نہیں کہ وہ کسی بھی وفاقی اکائی کے مفادات کی قیمت پر ہو۔
دونوں کے مفادات کو پورا کرنا ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہونا چاہیے۔کسی بھی بات چیت کا عمل انصاف پر مبنی اور موجودہ معاہدوں کی پیروی کرتے ہوئے ایسا اتفاق رائے پیدا کرنے پر مرکوز ہونا چاہیے جو قومی مفاد اور صوبائی حقوق کے درمیان توازن قائم کرے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments