ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں حکام امریکی ٹیرف کے خطرے کو خاصی غیر سنجیدگی سے لے رہے ہیں، دوسرے الفاظ میں وہ ممکنہ اثرات کی سنگینی کو پوری طرح نہیں سمجھ رہے۔ اس کا اندازہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے اس بیان سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان اپنے معدنی وسائل — بشمول نایاب ارضیاتی دھاتیں — امریکہ کو فروخت کرکے تجارتی خسارے کو کم کرسکتا ہے۔
تاہم ان معدنی وسائل اور نایاب ارضیاتی دھاتوں کی ملک میں ابھی بڑے پیمانے پر تلاش نہیں ہوئی ہے۔ اگرچہ مقامی حکام کی دلچسپی میں اضافہ ہورہا ہے — خاص طور پر ریکوڈک اور دیگر معدنی مقامات پر بیریک گولڈ کی شمولیت کے بعد — لیکن کسی بھی ٹھوس فائدے کے سامنے آنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ مزید برآں بلوچستان میں سکیورٹی اور سیاسی چیلنجز معاملے کو مزید پیچیدہ بنارہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف ایک کیمپ سائٹ کا تحفظ، جو صوبے کے اندر 600 کلومیٹر دور واقع ہے، کافی نہیں ہے۔ پورے علاقے میں ترقی اور معاشی سرگرمیوں کا ہونا ضروری ہے جو فی الحال موجود نہیں۔ مختصر یہ کہ منزل تک پہنچنے میں ابھی کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔
ادھر ہمارے برآمد کنندگان اور سرکاری حکام یہ سوچ رہے ہیں کہ امریکہ سے سویابین، کپاس اور خام تیل جیسی اشیاء کی درآمد بڑھائی جائے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ درآمدات درآمد کنندگان اور عام صارفین دونوں کے لیے مہنگی پڑسکتی ہیں، یا تو اس لیے کہ امریکہ کی قیمتیں زیادہ ہیں یا پھر مال برداری (فریٹ) کے اخراجات زیادہ آتے ہیں۔
ان اقدامات کے باوجود اصل مسائل جوں کے توں ہیں۔ امریکی پالیسی دستاویزات میں واضح طور پر پاکستان کی نان ٹیرف رکاوٹوں اور دیگر بے قاعدگیوں، جیسے کسٹمز ویلیو ایشن میں تضادات، کی نشاندہی کی گئی ہے۔ تجارت میں تکنیکی رکاوٹیں بھی موجود ہیں — مثلاً بلک فوڈ آئٹمز پر ایس آر او 237 کے اثرات، نگران حکومت کے دور میں جینیاتی طور پر ترمیم شدہ (جی ایم او) سویابین کا مسئلہ بھی ایک غیر ضروری بحران بن گیا تھا۔
جو لوگ امریکہ کے ساتھ تجارتی توازن بہتر بنانے کے حامی ہیں، وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ نان ٹیرف اور تکنیکی رکاوٹوں کو دور کیا جاسکتا ہے اور امریکی مصنوعات کو خصوصی رعایت دی جاسکتی ہے۔ لیکن کہنا آسان ہے، کرنا مشکل۔ اور فرض کریں کہ یہ مرحلہ طے بھی ہو جائے، تو آگے اور مشکلات انتظار کر رہی ہیں۔
امریکہ کی سروسز کی برآمدات کو پاکستان میں کئی پرانے مسائل کا سامنا بھی ہے۔ انٹرنیٹ کی بندشیں — بعض اوقات مکمل بندش — نہ صرف پاکستان میں امریکی کمپنیوں کے کام میں رکاوٹ ڈالتی ہیں بلکہ ان مقامی کمپنیوں کو بھی متاثر کرتی ہیں جو امریکی صارفین کو خدمات فراہم کررہی ہیں۔ وزارت خزانہ اور دیگر حکام اس مسئلے پر خاموش ہیں۔
اس کے علاوہ امریکہ کے ایک بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر، جس کے مالک ایک ایسے ارب پتی ہیں جو صدر ٹرمپ کے قریبی سمجھے جاتے ہیں، پاکستان میں پابندی عائد ہے، جو صورتحال کو مزید خراب کررہا ہے۔ سوشل میڈیا مارکیٹنگ سروسز کی ادائیگیوں کے مسائل بھی بدستور موجود ہیں، جس سے میٹا اور الفابیٹ جیسی عالمی کمپنیاں متاثر ہورہی ہیں۔ انٹرنیٹ پابندیوں اور پلیٹ فارم پر پابندیوں کی وجہ سے یہ کمپنیاں ایک بڑے مارکیٹ تک رسائی کھورہی ہیں۔
جب پاکستان تجارتی معاملات پر امریکا سے بات کرے گا تو مزید چیلنجز سامنے آنے کا امکان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان امریکہ کے لیے ایک چھوٹا تجارتی شراکت دار ہے؛ ہماری درآمدات ان کے لیے بمشکل کوئی خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں کسی خصوصی رعایت کی امید نہیں رکھنی چاہیے اور شاید ہمیں وہی ملے جو بڑے تجارتی شراکت داروں کے معاہدوں کے بعد بچ جائے۔
یہ مشکل وقت ہیں اور بہتر یہ ہے کہ بے جا امیدوں کے بجائے احتیاط کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔ دوسرے الفاظ میں، یہ اخبار ضرورت سے زیادہ پُرامیدی سے بچنے کی تنبیہ کررہا ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments