خبر رساں ادارے اے ایف پی کے نامہ نگار نے بتایا کہ حماس اور اسلامک جہاد کے درجنوں نقاب پوش افراد ہفتے کو غزہ شہر کے ایک اہم چوک پر پہنچے جہاں چار اسرائیلی خواتین یرغمالیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کیے جانے کا امکان ہے۔

یہ جنگجو، جن کے پاس رائفلیں اور راکٹ سے چلنے والے گرینیڈ لانچر تھے، قطاروں میں جمع ہوئے،انہوں نے اپنے گروپوں کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور سبز پٹکے پہنے ہوئے تھے جبکہ غزہ کے رہائشی ان کے ارد گرد جمع ہوکر یہ منظر دیکھ رہے تھے۔

ایک ہفتہ قبل افراتفری کے مناظر کے برعکس، جب ہجوم نے اس وقت رہا کیے گئے تین یرغمالیوں کو لے جانے والی گاڑیوں پر قبضہ کرنے کی دھمکی دی تھی، تو ہفتے کے روز حماس نے فوری طور پر چوک کے ارد گرد محاصرہ قائم کر لیا تاکہ ہجوم کو پیچھےرکھا جا سکے۔

حماس اور اسلامی جہاد کے ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے اپنے مسلح ونگز، عزالدین القسام بریگیڈز اور القدس بریگیڈز کے تقریباً 200 ارکان کو فلسطین اسکوائر کی حفاظت کے لیے تعینات کیا جہاں یرغمالیوں کی منتقلی کا عمل ہونا ہے۔

فائٹرز ایک اسٹیج کے ارد گرد تعینات تھے جو بم سے متاثرہ شاپنگ سینٹر کے سامنے بنایا گیا تھا، جس پر ایک بڑا فلسطینی پرچم لگا ہوا تھا۔ ان کے اوپر فلسطینی اور حماس کے پرچم والے بینر لٹکے ہوئے تھے۔

ایک درجن سے زیادہ جنگجو، جو حماس اور اسلامی جہاد کے تھے، ایک اسٹیج پر کھڑے تھے، جو اسرائیلی فوج اور سیکیورٹی خدمات کے نشانوں اور عبرانی زبان میں لکھے گئے پیغام ”صہیونیت غالب نہیں آئے گی“ سے سجا ہوا تھا۔ اسٹیج کے دونوں طرف ہائی کیلیبر گنز والی پک اپ ٹرکیں رکھی تھیں۔

نوجوان بچے اور نوعمر سمیت درجنوں غزہ کے باشندے منہدم عمارت کے سامنے ملبے کے بڑے ٹیلے پر چڑھ گئے تاکہ متوقع رہائی کا نظارہ کیا جا سکے۔

دوسری جانب اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے چار خواتین یرغمالیوں کو بازیاب کرانے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں جن کی رہائی ہفتے کے روز کی جائے گی۔

اسرائیلی یرغمالیوں اور لاپتہ خاندانوں کے فورم کے مطابق رہائی پانے والی خواتین میں کرینہ آریف، ڈینیلا گلبوا، ناما لیوی اور 19 سالہ لیری الباگ شامل ہیں۔

Comments

200 حروف