پاکستان میں کاشتکاری کیلئے موزوں علاقوں میں موسم سرما کے دوران خشک سالی کے سب فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ بارشوں میں 40 فیصد کمی کی وجہ سے خطہ خشک ہو گیا ہے۔
240 ملین کی آبادی پر مشمل پاکستان اب موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب سب سے زیادہ حساس ممالک میں شامل ہوگیا اور سائنسدانوں کے مطابق یہ تبدیلیاں شدید موسمی واقعات کو معمول بنانے کے ساتھ ساتھ شدید تر بناتی جارہی ہیں۔
پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ (پی ایم ڈی) کے مطابق مشرقی پنجاب کے زرعی علاقے میں ستمبر کے آغاز سے لے کر جنوری کے وسط تک معمول سے 42 فیصد کم بارش ہوئی۔
فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے چیئرمین ملک اصغر نے اے ایف پی کو بتایا کہ بارشوں کی کمی کا چھوٹے اور بڑے کسانوں پر سنگین مالی اثر پڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے علاقے میں آلو ایک بنیادی فصل ہے، اس سال پیداوار بہت کم ہے، عموماً ہمیں فی ایکڑ 100 سے 120 بوریاں مل جاتی تھیں لیکن اس سردیوں میں ہم نے صرف 60 بوریاں فی ایکڑ حاصل کی ہیں۔
اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق زرعی شعبہ پاکستان کی جی ڈی پی میں تقریبا ایک چوتھائی حصہ ڈالتا ہے اور ملک کی 37 فیصد افرادی قوت اس سے وابستہ ہے۔
تاہم ملک اصغر نے کہا کہ بہت سے چھوٹے کسان پہلے ہی ہمت ہار چکے ہیں اور اب کسی متبادل روزگار کی تلاش میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خشک موسم کے اس دور کا ان پر بہت منفی اثر پڑے گا۔
پی ایم ڈی کے مطابق پاکستان کے جنوب میں واقع اور سب سے زیادہ شہری آبادی رکھنے والے صوبہ سندھ معمول کی سطح سے 52 فیصد کم بارش ہوئی جبکہ مغربی صوبہ بلوچستان میں 45 فیصد کمی دیکھی گئی۔
پی ایم ڈی کے مطابق جنوری میں پنجاب کے بیشتر علاقوں، پورے سندھ اور تقریبا آدھے بلوچستان میں ”ہلکی خشک سالی“ رہی، جس میں آنے والے گرم مہینوں میں تیز رفتار ”شدید خشک سالی“ کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
گندم کے کاشتکار اشفاق احمد جٹ کا کہنا ہے کہ وسطی پنجاب کے علاقے ملتان میں بارشوں کی کمی سے ان کی فصل بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پانچ سال پہلے تک موسم سرما میں مسلسل ایک ہفتے تک بارشیں ہوتی رہتی تھیں، اگرچہ وہ ہلکی بارش ہوتی تھی لیکن ہمارے لیے کافی ہوجاتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر جلد بارش نہیں ہوئی تو پیدوار میں 50 فیصد تک کمی آنے کا خدشہ ہے۔
پاکستان عام طور پر پانی کے حصول کے لیے دریائے سندھ پر انحصار کرتا ہے جو ملک کو شمال سے جنوب تک دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے اور آخرکار بحیرہ عرب میں جاگرتا ہے۔
لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تیز رفتار بڑھتی ہوئی آبادی، موسمیاتی تبدیلی، اور وسائل کا ناقص انتظام، خاص طور پر ایک ہی پانی کے وسیلے پر زیادہ انحصار، پانی کی کمی کا سبب بن رہا ہے۔
یہ خشک سالی تقریباً تین سال بعد آئی ہے جب ریکارڈ مون سون بارشوں کے سبب تباہ کن سیلاب آیا تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کا ایک تہائی علاقے زیرآب آگیا تھا– جن میں سندھ اور پنجاب کے بڑے زرعی علاقے شامل تھے۔
پاکستان کے کئی علاقے سردیوں میں شدید دھند سے بھی متاثر رہتے ہیں، جو ناقص معیار کے ایندھن اور کسانوں کی فصلوں کے باقیات کو جلانے کی وجہ سے ہوتی ہے جبکہ ٹھنڈی ہوائیں آلودگی کو جذب کرکے بھی دھند کی شکل اختیار کرجاتی ہیں۔
بارش عموماً عارضی ریلیف فراہم کرتی ہے کیونکہ یہ فضا میں موجود نقصان دہ ذرات کو کافی حدتک ختم کردیتی ہے تاہم خشک موسم کے دوران دھند کی دبیز تہہ نے صوبہ پنجاب کو لپیٹ میں لے رکھا ہے جس سے انسانی صحت پر بھی مضر صحت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
Comments