بھارتی سیکیورٹی فورسز اور ماؤ باغیوں کے درمیان اتوار کو جنگل میں جھڑپ ہوئی ہے، پولیس نے بتایا، چھڑپ میں کم از کم چار گوریلا اور ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔

دہائیوں پر محیط بغاوت، جسے نکسلائٹ باغیوں نے شروع کیا ہے، میں 10,000 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ یہ باغی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بھارت کے وسائل سے مالا مال وسطی علاقوں میں پسماندہ مقامی لوگوں کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔

حکومتی فورسز نے گزشتہ سال اس طویل عرصے سے جاری مسلح تصادم کو ختم کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دیں، اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2024 میں تقریباً 287 باغی مارے گئے۔

جھڑپیں ہفتے کی رات چھتیس گڑھ ریاست کے اابوجھمڑھ ضلع میں ہوئیں، جو اس بغاوت کا ایک اہم میدان جنگ ہے۔

”پولیس فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ کے بعد ماؤ باغیوں کی چار لاشیں، جو جنگی وردی میں تھے، برآمد کیے گئے ہیں،“ پولیس انسپکٹر جنرل پی سندر راج نے اے ایف پی کو بتایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک پولیس کانسٹیبل بھی مارا گیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کارروائی ابھی جاری ہے۔

سال 2024 کے دوران تقریباً 1,000 مشتبہ نکسلائٹ گرفتار کیے گئے اور 837 نے ہتھیار ڈال دیے۔

بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ نے ستمبر میں ماؤ باغیوں کو خبردار کیا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں یا ”شدید حملے“ کا سامنا کریں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت توقع کرتی ہے کہ 2026 کے اوائل تک اس بغاوت کو ختم کر دیا جائے گا۔

گزشتہ چند سالوں میں اس بغاوت کو رقبے کے لحاظ سے نمایاں طور پر محدود کر دیا گیا ہے۔

نکسلائٹ، جس ضلع میں ان کی مسلح تحریک 1967 میں شروع ہوئی، اس کے نام پر مشہور ہیں۔ یہ چینی انقلابی رہنما ماؤ زے تنگ سے متاثر تھے۔

انہوں نے مقامی رہائشیوں کے لیے زمین، ملازمتیں، اور خطے کے بے پناہ قدرتی وسائل میں حصہ مانگا، اور بھارت کے مشرق اور جنوب کے متعدد دور دراز علاقوں میں جگہ بنائی۔

یہ تحریک اپنی طاقت اور تعداد میں اس وقت بڑھی جب تک کہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں نئی دہلی نے باغیوں کے خلاف ”ریڈ کوریڈور“ کے نام سے مشہور علاقے میں دسیوں ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات نہ کیا۔

حکام نے اس کے بعد سے نکسلائٹ تحریک کی اپیل کو کم کرنے کے لیے مقامی انفراسٹرکچر اور سماجی منصوبوں پر لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

Comments

200 حروف