توقع ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بدھ کے روز غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی ایک اور قرارداد کے مسودے پر ووٹنگ کرے گی تاکہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔
لیکن اس مسودے کو اسرائیل کے اہم اتحادی امریکہ کی جانب سے روکا جا سکتا ہے۔
قرارداد کے تازہ ترین مسودے میں ’فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی‘ اور ’تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ان الفاظ نے اسرائیل کو ناراض کر دیا ہے اور امریکہ کی جانب سے ویٹو کرنے کا خدشہ پیدا کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے اس متن کو ’شرمناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم اقوام متحدہ کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے اسرائیلی ریاست کے ہاتھ باندھ دے اور ہم اس وقت تک لڑائی بند نہیں کریں گے جب تک ہم تمام مغوی مرد و خواتین کو وطن واپس نہیں لے آتے۔
نائب امریکی سفیر رابرٹ ووڈ کا کہنا تھا کہ ’ہمارے لیے یہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے درمیان تعلق ہونا چاہیے۔‘ یہ شروع سے ہی ہمارا بنیادی موقف رہا ہے اور اب بھی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھی جس کے نتیجے میں 1206 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 43 ہزار 972 تک پہنچ گئی ہے جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ اقوام متحدہ ان اعداد و شمار کو قابل اعتماد قرار دیتی ہے۔
7 اکتوبر کے حملے کے دوران پکڑے گئے 251 یرغمالیوں میں سے 97 غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے 34 اسرائیلی فوج کے مطابق ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ کی 2.4 ملین آبادی میں سے تقریبا تمام اس جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔
Comments