سعودی عرب میں رواں سال 100 سے زائد غیر ملکیوں کو سزائے موت دی گئی ہے جو اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق ایک نمایاں اضافہ ہے۔

سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق ہفتے کو جنوب مغربی علاقے نجران میں ایک یمنی شہری کو پھانسی دی گئی جو خلیجی ریاست میں منشیات اسمگل کرنے کے جرم میں سزا یافتہ تھا۔

سرکاری میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سال 2024 میں سزائے موت پانے والے غیر ملکیوں کی تعداد 101 تک پہنچ چکی ہیں ۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ تعداد 2023 اور 2022 کے مقابلے میں تقریبا تین گنا زیادہ ہے جب سعودی حکام نے ہر سال 34 غیر ملکیوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔

برلن میں قائم یورپی سعودی تنظیم برائے انسانی حقوق (ای ایس او ایچ آر) نے کہا ہے کہ اس سال سزائے موت نے پہلے ہی ایک ریکارڈ قائم کردیا ہے۔

تنظیم کے لیگل ڈائریکٹر طحہ الحجی نے کہا کہ یہ ایک سال میں غیر ملکیوں کی سب سے بڑی تعداد میں سزائے موت ہے۔ سعودی عرب نے کبھی بھی ایک سال میں 100 غیر ملکیوں کو سزائے موت نہیں دی۔“

سعودی عرب کو سزائے موت کے استعمال پر مسلسل تنقید کا سامنا ہے، جس کی انسانی حقوق کے گروپوں نے مذمت کرتے ہوئے اسے حد سے زیادہ اور غیر مناسب قرار دیا ہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب نے 2023 میں چین اور ایران کے بعد دنیا میں تیسری سب سے زیادہ قیدیوں کو پھانسی دی۔

ستمبر میں اے ایف پی نے رپورٹ کیا تھا کہ سعودی عرب نے پچھلی تین دہائیوں میں سب سے زیادہ سزائے موت کے فیصلے کیے ہیں، جنہوں نے سال 2022 میں 196 اور 1995 میں 192 کی سابقہ بلند ترین تعداد کو عبور کرلیا۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس کے بعد سے سزائے موت کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے اور اتوار تک 274 افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔

اس سال سزائے موت پانے والے غیر ملکیوں میں پاکستان کے 21، یمن کے 20، شام کے 14، نائیجیریا کے 10، مصر کے 9، اردن کے 8 اور ایتھوپیا کے 7 افراد شامل ہیں۔

سوڈان، بھارت اور افغانستان سے تین، تین جبکہ سری لنکا، اریٹریا اور فلپائن سے ایک ایک شخص سزائے موت دی گئی۔

سعودی عرب نے 2022 میں منشیات کے مجرموں کے لیے تین سالہ تعطل کے بعد سزائے موت کا عمل دوبارہ شروع کیا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق رواں سال اب تک 92 افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے جن میں سے 69 غیر ملکی ہیں۔

سفارت کاروں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ غیر ملکی مدعا علیہان کو عام طور پر منصفانہ مقدمات کی سماعت میں زیادہ رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں عدالتی دستاویزات تک رسائی کا حق بھی شامل ہے۔

ای ایس او ایچ آر کے حاجی نے کہا کہ غیر ملکی ”سب سے زیادہ کمزور گروپ ہیں“۔

سعودی عرب سزائے موت کے مجرموں کے سر قلم کرنے کے حوالے سے بدنام ہے تاہم سرکاری بیانات میں سزائے موت کے طریقہ کار کا ذکر نہیں کیا گیا۔

Comments

200 حروف