کملا ہیرس یا ڈونلڈ ٹرمپ: امریکہ میں کانٹے دار صدارتی انتخابات کیلئے ووٹنگ شروع
- ابتدائی پولنگ اسٹیشنز کھل گئے، جدید دور کے سب سے سخت مقابلے میں دونوں کے ووٹس تقریبا برابر ہیں
امریکہ میں غیر معمولی اور بہت سے لوگوں کیلئے پریشان کن صدارتی انتخابات کی مہم کے بعد منگل کو ووٹنگ شروع ہوگئی ہے جس میں کملا ہیرس ملک کی پہلی خاتون صدر منتخب ہوں گی یا پھر ٹرمپ کے ایک بار پھر صدر منتخب ہونے کے بعد دنیا بھر میں ہلچل مچ جائے گی۔
ابتدائی پولنگ اسٹیشنز کے کھلنے تک ڈیموکریٹک نائب صدر 60 سالہ کملا ہیرس اور ری پبلکن امیدوار اور سابق امریکی صدر 78 سالہ ٹرمپ ہم پلہ ہیں، جدید دور میں وائٹ ہاؤس پر براجمان ہونے کیلئے یہ سب سے زیادہ سخت اور غیر مستحکم مقابلہ تصور کیا جارہا ہے۔
دونوں حریفوں نے اپنی انتخابی مہم کا آخری دن تیز رفتاری سے اپنی حمایت حاصل کرنے والوں کو پولنگ اسٹیشنز تک پہنچانے اور آخری لمحات میں فیصلہ کن ثابت ہونے والے ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے میں گزارا اور ایسا خاص طور پر ایسی ریاستوں میں دیکھنے میں آیا ہے جہاں دونوں کے ووٹس یکساں تصور کیے جارہے ہیں اور جنہیں فیصلہ کن سمجھ جارہا ہے۔
لیکن انتخابی مہم میں ہونے والی کئی حیران کن تبدیلیوں کے باوجود – جیسے کہ کملا ہیرس کا صدر جو بائیڈن کے جولائی میں مہم سے دستبردار ہونے کے بعد شاندار انداز میں میدان میں آنا، ٹرمپ کا دو قاتلانہ حملوں اور ایک مجرمانہ سزا کے باوجود مہم جاری رکھنا – عوامی رائے کے جائزوں میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی اور انتخابی معرکہ بدستور جاری رہا۔
پولنگ اسٹیشنز صبح 6:00 بجے (1100 جی ایم ٹی) سے کھل گئے، جن میں ورجینیا، شمالی کیرولائنا اور نیو یارک جیسے ریاستیں شامل ہیں۔ کروڑوں ووٹرز سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اپنا ووٹ ڈالیں گے، جبکہ اس سے پہلے کے ہفتوں میں 82 ملین سے زائد افراد پہلے ہی ووٹ ڈال چکے ہیں۔
اگر نتائج پولز کی پیشن گوئی کے مطابق قریب رہے، تو حتمی نتیجہ چند دنوں تک معلوم نہیں ہو سکتا جس سے سیاسی طور پر منقسم قوم میں پائی جانے والی کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
اور اگر ٹرمپ ہار گئے اور پھر 2020 کی طرح نتائج کو چیلنج کریں، تو افراتفری اور حتیٰ کہ تشدد کے خدشات بھی ہیں، جس کے پیش نظر وائٹ ہاؤس کے ارد گرد رکاوٹیں لگا دی گئی ہیں اور واشنگٹن میں کاروبار بند کر دیے گئے ہیں۔
دنیا بے چینی سے اس انتخاب کے نتیجے کو دیکھ رہی ہے کیونکہ اس کے اثرات مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات، یوکرین میں روس کی جنگ، اور ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدامات کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر ہوں گے – جسے ٹرمپ ”فریب“ قرار دیتے ہیں۔
’ہر ووٹ اہمیت رکھتا ہے‘
ایریزونا، جارجیا، مشی گن، نیواڈا، نارتھ کیرولائنا، پنسلوانیا اور وسکونسن میں ٹرمپ اور کملا کے ممکنہ ووٹس تقریبا قریب قریب ہیں۔
ووٹنگ کے دن سے پہلے کملا ہیرس نے پنسلوانیا میں اپنی مہم پر زور دیا جہاں انہوں نے فلاڈیلفیا کی سیڑھیوں پر خطاب کیا جو ”روکی“ فلم میں مشہور ہوئی تھیں اور کہاکہ ہمیں برتری حاصل ہے۔
تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ یہ تاریخ کا ایک سب سے سخت مقابلہ ہو سکتا ہے، ہر ایک ووٹ اہم ہے، ان کے ساتھ مشہور شخصیات جیسے لیڈی گاگا اور اوپرا وِنفری بھی موجود تھیں۔
ٹرمپ ، جو صدارتی انتخاب جیتنے والے پہلے مجرم اور معمر ترین شخص بن جائیں گے ، نے خود کو ملک کے زوال اور ”وحشی“ تارکین وطن کے غلبے کے تباہ کن تصور کا واحد حل کے طور پر پیش کیا ہے۔
شمالی کیرولائنا اور پنسلوانیا کا دورہ کرنے کے بعد مشی گن کی گرینڈ ریپڈز میں اپنی اختتامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ کل آپ کے ووٹ سے ہم اپنے ملک کو درپیش ہر مسئلے کو حل کر سکتے ہیں اور امریکہ کو دنیا کی نئی بلندیوں پر لے جا سکتے ہیں۔
دوسری طرف، ہیرس نے پورے امریکہ میں ٹرمپ کی حمایت یافتہ اسقاط حمل پر پابندیوں کے خلاف اپنے موقف کو سختی سے اجاگر کیا – جو خواتین ووٹرز کے درمیان ان کی اہم ووٹ جیتنے والی پوزیشنوں میں سے ایک ہے۔
لیکن ہیرس نے ایک خوشگوار لہجہ اختیار کیا اور خاص طور پر ٹرمپ کا ذکر کرنے سے گریز کیا، حالانکہ وہ کئی ہفتوں تک ٹرمپ کی جانب سے سیاسی مخالفین سے بدلہ لینے کی دھمکیوں کا حوالے دیتے ہوئے انہیں جمہوریت کیلئے خطرہ قرار دیتی رہی ہیں۔
تاریخ رقم کی جائے گی
ٹرمپ کی واپسی تاریخ ساز ہوگی، یہ ان کیلئے غیر مستقل دوسرا دورِ حکومت ہوگا، جیسا کہ 1893 میں گروور کلیولینڈ کا تھا۔
ٹرمپ کی واپسی فوری طور پر بین الاقوامی عدم استحکام کو بھی ہوا دے گی، یورپ اور نیٹو میں امریکی اتحادی ان کی تنہائی پسند ”امریکہ فرسٹ“ پالیسیوں سے خوفزدہ ہیں۔ تجارتی شراکت دار بڑے پیمانے پر درآمدی محصولات عائد کرنے کے ان کے عزم کو گھبراہٹ سے دیکھ رہے ہیں۔
کامیاب ہونے کی صورت میں کملا امریکی کی پہلی سیاہ فام اور جنوبی ایشیائی خاتون صدر بن جائیں گی اور ٹرمپ دور کے خاتمے کا اشارہ دے گی جو تقریبا ایک دہائی سے امریکی سیاست پر حاوی ہیں۔
ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ 2028 میں دوبارہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔
تاہم، ری پبلکن رہنما ابھی تک یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ انہوں نے 2020 کے انتخابات میں بائیڈن کے ہاتھوں منصفانہ طور پر شکست کھائی اور ان کے حامیوں کی جانب سے امریکی کیپیٹل پر ہونے والے تشدد کے حملے کا صدمہ اب بھی گہرا ہے جس کا مقصد نتیجے کی تصدیق کو روکنا تھا۔
ٹرمپ نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ کسی اور شکست کو تسلیم نہیں کریں گے اور انتخابی مہم کے آخری دنوں میں انہوں نے بے بنیاد انتخابی دھاندلی کے الزامات اٹھائے، ساتھ ہی کہا کہ انہیں کبھی بھی وائٹ ہاؤس چھوڑنا نہیں چاہیے تھا۔
Comments