بنگلہ دیش کے ایک کمیشن نے منگل کو بتایا ہے کہ سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کے دور حکومت میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں اغوا ہونے والے 200 کے قریب بنگلہ دیشی شہری تاحال لاپتہ ہیں۔

77 سالہ حسینہ واجد اگست میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس وقت پڑوسی ملک بھارت فرار ہو گئیں تھیں جب طلبہ کی قیادت میں چلنے والی تحریک کے دوران ڈھاکہ کی سڑکوں پر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جس سے ان کی فسطائیت پر مبنی حکومت کا خاتمہ ہوا۔

ان کی حکومت پر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات تھے جن میں سیاسی مخالفین کے ماورائے عدالت قتل اور سیکڑوں افراد کا غیرقانونی اغوا اور لاپتہ کیے جانا شامل ہیں۔

نگران حکومت کے تحت قائم کیے گئے ایک کمیشن نے کہا کہ حسینہ کی برطرفی کے بعد پانچ افراد کو خفیہ حراستی مراکز سے رہا کیا گیا لیکن بہت سے افراد ابھی تک غائب ہیں اور ان کا سراغ نہیں مل سکا۔

کمیشن کے رکن نور خان نے بتایا کہ کم از کم 200 لوگوں کا کوئی سراغ نہیں مل رہا، ہم ان کا سراغ لگانے کے لئے کام کر رہے ہیں۔

کمیشن کا کہنا ہے کہ اس نے ڈھاکہ اور اس کے مضافات میں کم از کم آٹھ خفیہ حراستی مراکز کی نشاندہی کی ہے جن میں سے کچھ تین بائی چار فٹ (90 بائی 120 سینٹی میٹر) تک چھوٹے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ان سیلوں کی دیواروں پر نقش و نگار تھے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں رہنے والوں نے حراست میں لیے گئے دنوں کی تعداد کا حساب رکھا ہوا ہے۔

ایک کمشنر کا کہنا تھا کہ حسینہ واجد کا تختہ الٹنے کے بعد قانون نافذ کرنے والے نامعلوم اداروں کی جانب سے ان خفیہ حراستی مراکز کے شواہد مٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

کمشنرز کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی گمشدگی کے زیادہ تر کیسز میں ایلیٹ ریپڈ ایکشن بٹالین (آر اے بی) پولیس یونٹ کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔

رپڈ ایکشن بٹالین کو 2021 میں واشنگٹن کی طرف سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، ساتھ ہی اس کے سات سینئر افسران پر بھی پابندیاں عائد کی گئیں تھیں جو حسینہ کی حکومت کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں اس کی ملوث ہونے کی رپورٹس کا ردعمل تھا۔

کمیشن کے چیئرمین معین الاسلام چودھری نے کہا کہ حکومت اور عدلیہ میں ادارہ جاتی خرابیوں نے حسینہ واجد کے دور حکومت میں استثنیٰ کے ماحول کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عوامی مفاد میں نہیں بلکہ اپنے ایجنڈے اور سیاسی مفادات کے لئے استعمال کیا۔

یہ کمیشن نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی عبوری حکومت نے دور رس جمہوری اصلاحات کے نفاذ کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر قائم کیا تھا۔

محمد یونس اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ انہیں انتظامی امور سے متعلق ایک مکمل فرسودہ نظام ورثے میں ملا ہے جس میں مستقبل میں آمریت کی واپسی کو روکنے کے لیے جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔

Comments

200 حروف